رسائی کے لنکس

مواخذے کی کارروائی، سینیٹ ٹرائل سے قبل اہم وکلا ٹرمپ کی ٹیم سے الگ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے سینیٹ میں ٹرائل سے چند روز قبل ہی ٹرمپ کی قانونی ٹیم میں شامل دو اہم وکلا الگ ہو گئے ہیں۔

ریاست ساؤتھ کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے وکیل بچ باورز اور ڈیبرا باربیئر بھی سابق صدر کی وکلا کی ٹیم میں شامل تھے۔ تاہم ہفتے کو سامنے آنے والی میڈیا رپورٹ کے بعد فریقین کی رضا مندی سے یہ دونوں وکلا ٹیم سے الگ ہو گئے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی رپورٹ کے مطابق مزید تین وکلا جو سابق صدر کی ٹیم می شامل تھے اب ٹرمپ کی قانونی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سابق صدر ٹرمپ اور اُن کے وکلا کی ٹیم کے مابین نو فروری کو سینیٹ میں ٹرائل کے حوالے سے قانونی نکات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

سابق صدر پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے چھ جنوری کو امریکی جمہوریت کی علامت کانگرس کی عمارت "کیپٹل ہل" پر حملے کے لیے اپنے حامیوں کو اُکسایا۔

امریکی ایوانِ نمائندگان سابق صدر کے 20 جنوری کو سبکدوش ہونے سے قبل ہی اُن کے مواخذے کی منظوری دے چکی ہے۔

سابق صدر ٹرمپ کو دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔ اس سے قبل 2019 میں بھی اُن کے خلاف ایوانِ نمائندگان نے مواخذے کی منظوری دی تھی۔ ٹرمپ پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے 2016 میں امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق کانگریس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

گزشتہ سال کے اوائل میں امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی منظوری نہیں دی تھی۔ اس وقت ری پبلکن اراکین کی سینیٹ میں اکثریت تھی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم ٹھیرانے کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50،50 ارکان ہیں۔

امریکی سینیٹ میں سابق صدر کے مواخذے کے لیے ٹرائل کا آغاز نو فروری سے ہو رہا ہے۔
امریکی سینیٹ میں سابق صدر کے مواخذے کے لیے ٹرائل کا آغاز نو فروری سے ہو رہا ہے۔

سابق صدر کو مجرم ٹھیرانے کے لیے ڈیمو کریٹس کو ری پبلکن پارٹی کے 17 سینیٹرز کی حمایت درکار ہو گی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے ری پبلکن اراکین مواخذے کے حق میں ہیں۔

بعض ری پبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے صدارتی دفتر میں نہ ہونے کے بعد مواخذے کی کارروائی شروع کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اگر صدر ٹرمپ سینیٹ سے مجرم قرار پاتے ہیں تو وہ دوبارہ کوئی وفاقی عہدہ نہیں سنبھال سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG