امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے اپنے ری پبلکنز حامیوں کے علاوہ 15 افراد کو صدارتی معافی دے دی ہے۔
جن افراد کو معافی دی گئی ہے اُن میں 2016 کے الیکشن میں روسی مداخلت سے متعلق تحقیقات کا سامنا کرنے والے صدر کی انتخابی مہم کے اہلکار اور 2007 میں بغداد میں قتلِ عام کے الزامات کے تحت سزا یافتہ کانٹریکٹر بھی شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پانچ افراد کی سزاؤں کو بھی کم کر دیا ہے۔
امریکی صدور کی جانب سے دورِ صدارت کے اختتام پر صدارتی معافی دینا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم صدر ٹرمپ کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اُن کے حامیوں اور قریبی ساتھیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔
قیاس آرائیوں کے باوجود اطلاعات کے مطابق صدارتی معافی کی اس فہرست میں صدر ٹرمپ کے اہلِ خانہ، اُن کے وکیل روڈی جولیانی یا خود صدر ٹرمپ شامل نہیں ہیں۔
جن افراد کو صدارتی معافی دی گئی ہے اُن میں کیلی فورنیا سے ایوانِ نمائندگان کے سابق رُکن ڈنکن ہنٹر اور نیویارک سے تعلق رکھنے والے کرس کولنز بھی شامل ہیں۔
ہنٹر نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے صدارتی مہم کے فنڈز میں خرد برد کی اور یہ فنڈز اپنی بیٹی کی سالگرہ اور دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح پر خرچ کیے۔ جرم ثابت ہونے پر اُنہیں 11 ماہ قید سنائی گئی تھی۔
صدر نے ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے سابق رُکنِ کانگریس اسٹیو اسٹاک مین کی سزا بھی کم کر دی ہے جنہیں اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے دھوکہ دہی سے اپنے بیٹے اور دیگر ساتھیوں کو آٹھ لاکھ ڈالرز کا فائدہ پہنچانے کا اعتراف کرنے پر دو سال دو ماہ قید سنائی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ نے 2016 کی انتخابی مہم کے ایک مشیر جارج پاپا ڈوپلوس کو بھی صدارتی معافی دے دی ہے جن کی مبینہ گفتگو سامنے آنے کے بعد انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کا آغاز ہوا تھا۔
صدر نے ڈچ وکیل الیکس وینڈر ژوان کو بھی معاف کر دیا ہے جنہوں نے انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کی تحقیقات کے دوران خصوصی تفتیش کار رابرٹ ملر کو جھوٹا بیان دیا تھا۔ ژوان کو 30 دن قید کی سزا دی گئی تھی۔
پاپا ڈوپلوس اور ژوان سے قبل صدر ٹرمپ 2016 کے انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کی تحقیقات کا سامنا کرنا والے اپنے قریبی ساتھی مائیکل فلن اور اس سے قبل راجر اسٹون کو بھی صدارتی معافی دے چکے ہیں۔
مائیکل فلن نے اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے روسی سفیر سے ملاقات کے معاملے پر ایف بی آئی سے دو دفعہ جھوٹ بولا تھا۔
امریکی صدر نے اُن چار کنٹریکٹر کو بھی صدارتی معافی دے دی ہے جن پر 2007 میں بغداد میں 12 سے زائد عام شہریوں کو ہلاک کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا اور کئی سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
اس معاملے پر عالمی سطح پر کافی شور اُٹھا کہ جنگ زدہ علاقے میں نجی سیکیورٹی کانٹریکٹر کیوں رکھے گئے۔
خیال رہے کہ عراق میں امریکی سفارت کاروں کی سیکیورٹی کے لیے نجی کمپنی 'بلیک واٹرز' کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔
کمپنی سے وابستہ ان چاروں اہلکاروں پر بغداد میں 12 سے زائد عام شہریوں کو بلا اشتعال فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کا الزام تھا جب کہ ان افراد کا یہ مؤقف تھا کہ ان پر عراقی جنگجوؤں نے حملہ کیا اور جوابی فائرنگ کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔