بتایا جاتا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں کے اندر، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایران پر عائد تعزیرات میں اضافے کا اعلان کریں گے، جب کہ اٹھائی گئی پابندیاں پھر سے لاگو کریں گے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ جوہری ہتھیاروں پر تحقیق کی راہ ترک کر دے۔ یہ خبر متعدد خبر رساں اداروں نے جاری کی ہے۔
صدر نے جمعرات کی شام گئے ایران کے سوال پر اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ارکان سے ملاقات کی۔
قانونی طور پر، انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر 90 روز کے بعد اس بات کی تصدیق کرے آیا ایران 2015ء کے اُس سمجھوتے پر عمل درآمد کر رہا ہے جس پر ایران نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ دستخط کیے تھے، تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کیا جا سکے۔ نئے تصدیق نامے کی حتمی تاریخ جمعے کو ختم ہو رہی ہے۔
اکتوبر میں، ٹرمپ نے کہا کہ ایران 2015ء کے معاہدے کے جذبے پر کاربند رہنے میں ناکام رہا ہے، جسے ’جوائنٹ کمپریہنسو پلان آف ایکشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن، ابھی تک اُنھوں نے ایران کی توانائی کی صنعت پر تعزیرات کی شدت میں از سر نو اضافہ نہیں کیا، جو کہ پہلے لاگو تھے۔
جلا وطن گروپ اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکن ٹرمپ کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کریں گے جو ایسی حکومت کے خلاف سخت اقدامات کی آس لگائے بیٹھے ہیں، جو متعدد ایرانی شہروں میں حکومت مخالف احتجاج کے حامی ہیں؛ اُن کی توقعات ایسے صدر سے ہیں جو ایران کے جوہری معاہدے کے سخت ناقد رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس پریس بریفنگ میں جمعرات کے روز، ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک سوال کے جواب میں، مالیات کے وزیر اسٹیو منوشن نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات حکومتِ ایران کا دھیان مبذول کرانے میں کامیاب ہوں گے۔