امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ امریکی کانگریس کو نظر انداز کر کے سعودی عرب کو جوہری پاور پلانٹس کی فروخت کی کوشش کر رہی ہے اور ایک ایسے سعودی جوہری معاہدے کو آگے بڑھا رہی ہےجس سے جیرڈ کشنر سے منسلک ایک کمپنی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
ڈیمو کریٹ قیادت کے ایوان کی نگرانی اور اصلاحات کی کمیٹی نے سعودی عرب میں درجنوں جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر کی تجویز کے حوالے سے وائٹ ہاؤس پر غیرمعمولی اقدامات کا الزام عائد کیا ہے۔
منگل کے روز کمیٹی نے ان الزامات پر ایک تفتیشی کارروائی کا آغاز کیا جس میں اس بارے میں خدشات شامل تھے کہ آیا وائٹ ہاؤس کے عہدے داروں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی مہینوں میں سعودی عرب کے ساتھ کسی ایسے معاہدے کی کوشش کی تھی جس سے امریکی صدر کے قریبی حامیوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس جوہری کوشش کو قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن نے آگے بڑھایا تھا جنہیں2017 میں برطرف کر دیا گیا تھا اور وہ روس کے بارے میں ایک چھان بین میں ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کی بنا پر سزا کا انتظار کر رہے ہیں۔ فلن کے لائے ہوئے قومی سلامتی کونسل کے ایک عہدے دار ڈیرک ہاروے نے اس مجوزہ منصوبےپر کام جاری رکھا جو بدستور ٹرمپ انتظامیہ کے زیر غور رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو جوہری ٹکنالوجی کی فروخت کی کوشش ٹیکنالوجی کی منتقلی کے تحفظ سے متعلق ایک امریکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
سعودی عرب کو مجوزہ فروخت کی خبر پر سیکورٹی سے متعلق تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے جنہوں نے کہا کہ امریکہ کی حساس جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی سعودی سلطنت میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ کے اسکالر محمد علی شبائی نے کہا ہے کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ امریکہ یورینیم سے افزودہ ٹیکنالوجی سعودی عرب کو فروخت کرے گا اور اس لئے ان کا خیال تھا کہ ریاض کبھی بھی کوئی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکے گا۔ تاہم جوہری پاور پلانٹس کی فروخت کو آسان بنانے کے لیے خود امریکہ کے قوانین کو پس پشت ڈالنے پر، ٹرمپ انتظامیہ کی وسیع تر ساکھ پر سوال اٹھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری ٹکنالوجی کی منتقلی کے منصوبوں سے واشنگٹن کی بین الاقوامی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں۔ تہران یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ناصر حادین نے الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ مسئلہ سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی کا نہیں بلکہ امریکی دوہرے معیاروں کا ہے۔ اگر آپ امریکہ کے اتحادی ہیں تو سب ٹھیک ہے اور اگر آپ نہیں ہیں تو تمام قسم کے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اخبار انڈی پینڈنٹ کے مطابق اس وقت ایوان میں ڈیمو کرٹیک قیادت کی ایک کمیٹی امریکی جوہری پاور کمپنیوں کی جانب سے سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں میں جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی منظوری حاصل کرنے کی کوششوں کی چھان بین کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹ ارکان اس پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
کمپنی کی تفتیش کا ایک اہم ہدف جوہری پاور پروڈیوسرز کا ایک کنسورشیم، آئی پی تھری انٹر نیشنل تھا جس نے سعودی عرب میں جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر سے متعلق صدارتی منظوری کے لئے 2016 کے آخر اور 2017 کے اوائل میں لابنگ شروع کی تھی۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب واشنگٹن ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ پر مبینہ طور پر سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت کی کوشش پر منافقت کا الزام عائد کیا ہے۔
ظریف نے بدھ کے روز ٹویٹر پر لکھا کہ دنیا پر دن بدن یہ واضح ہوتا جا رہا ہے جو ہم پر ہمیشہ سے واضح تھا کہ امریکہ کے لئے انسانی حقوق اور جوہری پروگرام ہمیشہ سے تشویش کی اصل وجہ نہیں تھے۔
وائٹ ہاؤس نے کانگریس کی رپورٹ پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔