امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا ہے کہ چین اس اتفاقِ رائے سے پیچھے ہٹ گیا ہے جو اس نے باہمی تجارت پر جاری مذاکرات کے دوران امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔
بدھ کو امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے چین پر امریکہ کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ توڑنے کا الزام لگایا اور خبردار کیا کہ اگر باہمی تجارت پر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت نہ ہوئی تو اس کا خمیازہ چین کو بھگتنا پڑے گا۔
صدر نے کہا کہ وہ کسی صورت چین سے کی جانے والی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تاوقتیکہ چین ان کے بقول "ہمارے محنت کشوں کو دھوکہ دینا بند نہیں کردیتا۔"
صدر کے اس خطاب سے قبل امریکہ کے نمائندۂ تجارت کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ چین سے امریکہ درآمد کی جانے والی 200 ارب ڈالر مالیت کی اشیا پر نافذ 10 فی صد اضافی ٹیکس جمعے کی شب 12 بجے سے 25 فی صد ہوجائے گا۔
محصولات میں یہ اضافہ عین ایسے وقت ہوگا جب چین کے نائب وزیرِ اعظم لی ہی تجارتی معاملات پر بات چیت کے لیے واشنگٹن پہنچیں گے۔
بدھ کو اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے چینی درآمدات پر محصولات میں اضافے کا اعلان کردیا ہے اور وہ اس وقت تک اس معاملے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک چین "امریکی محنت کشوں کو دھوکہ دینا اور ان کے روزگار پر ڈاکہ ڈالنا" بند نہیں کردیتا۔
صدر نے کہا کہ اگر چین نے ایسا نہ کیا تو ہمیں اس کے ساتھ تجارت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ چین نے بات چیت میں ہونے والے اتفاقِ رائے کو توڑا ہے جس کی اسے اجازت نہیں دی جاسکتی اور اسے اس کی قیمت چکانا ہوگی۔
چین خبردار کرچکا ہے کہ اگر امریکہ نے اس کی برآمدات پر محصولات میں اضافہ کیا تو وہ بھی جوابی اقدام کرے گا۔
دنیا کی دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان جولائی 2018ء سے تجارتی جنگ جاری ہے جو صدر ٹرمپ کے اس مطالبے سے شروع ہوئی تھی کہ چین اپنی معیشت میں ایسی اصلاحات کرے جس سے امریکی کمپنیوں کے حقوقِ دانش محفوظ بنانے اور چینی منڈیوں تک ان کی رسائی آسان بنانے میں مدد مل سکے۔
گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافی معاملات پر بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ایک دوسرے کی برآمدات پر عائد کیے جانے والے ٹیرف کے سبب نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ عالمی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تنازعات پر کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے کی امیدیں روشن ہوئی تھیں لیکن گزشتہ ہفتے مجوزہ معاہدے کی تحریر پر اختلافات کے باعث معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔