امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی افواج ایران پر حملے کے لیے بالکل تیار تھیں، لیکن فوجی کارروائی سے محض دس منٹ قبل انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا، صدر نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو ایسی تباہی ہو گی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے۔
امریکی ٹی وی این بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں صدر نے ایک بار پھر کہا کہ وہ جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے حامی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد انھوں نے جوابی کارروائی کی اجازت دے دی تھی، تاہم عین وقت پر انھوں نے ارادہ بدل دیا، کیوں کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں 150 ایرانی فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کا خدشہ تھا۔
خیال رہے کہ جمعرات کو امریکی فوج نے ایران کی جانب سے خلیج میں اس کا ایک ڈرون طیارہ گرائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ ایران کے پاسدران انقلاب نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی طیارے نے ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی جس پر اسے گرایا گیا۔
اس واقعے کے بعد پہلے سے ہی کشیدہ امریکہ ایران تعلقات کے باعث براہ راست فوجی تصادم کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا، حالیہ کشیدگی کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت ایک فیصد اضافے کے بعد 65 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'میں جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر جنگ ہوئی تو یہ ایسی تباہی ہو گی جو آپ نے ماضی میں نہیں دیکھی ہو گی۔'
ایران کے اعلٰی حکام نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ امریکی صدر نے اومان کے ذریعے انھیں بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کرنے کی پیشکش کی ہے۔
ایک اور ایرانی اہل کار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے، تاہم امریکی صدر کے پیغام سے متعلق انھیں آگاہ کر دیا گیا ہے۔
امریکہ محکمہ خارجہ نے ایران کے ساتھ بیک چینل رابطے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے اسے ایران کا پروپیگنڈہ قرار دیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے کی گئی متعدد ٹویٹس میں عندیہ دیا ہے کہ وہ جنگ کی جلدی میں نہیں ہیں، صدر نے کہا کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں اسی لیے عائد کی گئی ہیں تاکہ وہ اپنا جوہری اور میزائل پروگرام ترک کرے اور علاقائی جنگوں میں بھی ملوث نہ ہو۔
امریکہ کے اہداف کیا تھے؟
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام نے ایران کے ریڈار اور میزائل نظام کو نشانہ بنانے کے لیے اہداف کا تعین کر لیا تھا، ان اہداف کو میزائلوں کے ذریعے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔
اس ضمن میں پہلے سے ہی مشرق وسطی میں تعینات امریکی جنگی بیڑے اور فضائیہ کو ٹاسک دے دیا گیا تھا۔ اس ممکنہ حملے میں ان میزائل تنصیبات کو بھی تباہ کرنا تھا جنہوں نے امریکی ڈرون طیارے کو گرایا تھا۔
اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، وزیر خارجہ مائیک پومپیو، ڈائریکٹر سی آئی اے جینا ہیسپل سمیت صدر کے بیشتر مشیر جوابی کارروائی کے حق میں تھے، تاہم حتمی فیصلہ صدر ٹرمپ نے کیا۔
'کسی بھی جارحیت کا جواب دیں گے'
ایران نے امریکی جوابی کارروائی کے امکانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
ایرانی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ انھوں نے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی ڈرون طیارہ گرایا تھا، ایران نے کہا تھا کہ اس کی فضائی حدود ایک سرخ لکیر کی مانند ہے جو بھی اسے عبور کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ایران امریکہ کشیدگی کب کیا ہوا؟
ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدگی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز پر امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنٰی بھی ختم کر دیا تھا۔
امریکہ کا یہ موقف ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے جب کہ وہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔
ایران ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔
خطے میں کشیدگی کے باعث امریکہ نے جنگی بیڑے اور فوجی بھی مشرق وسطیٰ بھیج دیے ہیں۔