امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بامعنیٰ افغان امن بات چیت کے لیے طالبان کو تشدد کی کارروائیوں کو روکنا ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
خبر رساں ادارے، 'رائٹرز' نے وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُس وقت تک بامعنی مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں جب تک طالبان واضح طور پر تشدد میں کمی نہیں کرتے۔
بیان کے مطابق، صدر ٹرمپ نے طالبان کی طرف سے تشدد میں واضح اور پائیدار کمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان کے مستقبل سے متعلق بامعنی مذاکرات میں مدد ملے گی۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کی مذاکراتی وفد کے درمیان بات چیت جاری ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ یہ بات چیت اہم مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
قبل ازیں، طالبان کی طرف سے اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ محدود جنگ بندی پر تیار ہیں، جسے اگرچہ خوش آئند قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی طالبان پر مستقبل جنگ بندی سمیت کابل حکومت اور دیگر افغان دھڑوں سے بات چیت پر زور دے رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ستمبر میں اس وقت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کر دیے تھے، جب فریقین امن معاہدہ طے پانے کے قریب تھے۔ تاہم، یہ بات چیت گزشتہ ماہ ایک بار پھر بحال ہوئی ہے۔
اگرچہ طالبان کی طرف سے صدر ٹرمپ کے تشدد کو روکنے سے متعلق بیان پر طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم، اس سے قبل طالبان محددو جنگ بندی کی پیش کش کر چکے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے مشروط جنگ بندی کی پیش کش خوش آئند ہے۔ تاہم، امریکہ مستقبل جنگ بندی پر زور دے رہا ہے۔
اُن کے بقول، امریکہ محدود جنگ بندی کی پیش کش قبول کرنے پر تیار نہیں اور طالبان پر بین الافغان مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔
سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت میں اب بھی کئی طرح کی مشکلات حائل ہیں۔ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے نا صرف طالبان کو مستقل جنگ بندی پر تیار ہونا پڑے گا، بلکہ انہیں اپنی ماضی کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی لانا ہو گی۔
یاد رہے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے سے قبل نا تو مستقل جنگ بندی اور نا ہی کابل حکومت سے بات چیت پر تیار ہیں۔