جائیداد کےکاروبار سے وابستہ ارب پتی، ڈونالڈ ٹرمپ قسمت کے دھنی ہیں جو امریکی ری پبلیکن پارٹی کی سیاست کے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے ہیں، جنھیں پارٹی نے 2016کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کیا ہے۔ اُنھوں نے امریکی تاریخ میں بہت ہی غیر معمولی راستوں کے ذریعے سیاسی میدان میں شہرت حاصل کا ڈنکا جمایا۔
تیرہ ماہ قبل، وہ نیویارک سٹی کے ٹرمپ ٹاور سے نمودار ہوئے، جس پُر تعیش فلک بوس عمارت کو اُنھوں نے تعمیر کیا، جہاں وہ مقیم ہیں۔ اُنھوں نے اعلان کیا کہ وہ صدارتی عہدے کے لیے امیدوار ہوں گے۔ امریکی سیاسی شخصیات اور ذرائع ابلاغ نے اس اعلان کو مذاق سمجھا؛ جب کہ تجزیہ کاروں نے کہا کہ ٹرمپ کو ری پبلیکن پارٹی کی نامزدگی ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ وہ صدر براک اوباما کے جانشین بنیں۔
لیکن، سال بھر کی تلخ اور الزامات سے پُر صدارتی مہم کے بعد، ٹرمپ نے دیگر 16 امیدواروں سے سبقت حاصل کی، جن میں زیادہ تر پیشہ ور سیاست دان، یا پھر موجودہ یا سابق سینیٹر یا گورنر تھے۔
ٹرمپ نے مخالفین کے خلاف شوخ باتیں کیں اور اُن پر جملے کسے۔ پھر ہوتے ہوتے وہ ریاستوں کی پرائمریز اور کاؤکسز میں ووٹ کے لحاظ سے آگے بڑھتے گئے۔
ری پبلیکن پارٹی کے لاکھوں امریکی ٹرمپ کی غیر روایتی باتوں سے متاثر ہوئے، جنھوں نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر، کم از کم عارضی طور پر، بندش کی تجویز پیش کی، تاکہ دہشت گرد حملوں سے بچا جاسکے؛ امریکہ میں موجود ایک کروڑ 10 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا؛ جب کہ مزید تارکین وطن کو ملک میں آنے سے روکنے کے لیے امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کی بات کی۔
ری پبلیکن پارٹی کے مد مقابل صدارتی نامزدگی کے خواہاں دیگر امیدواروں کے خلاف باتوں کے علاوہ، ٹرمپ نے واشنگٹن کے طاقتور حلقوں کے خلاف مہم چلائی؛ جس دوران اُنھوں نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کیں جن میں اوباما، سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور اُن کے شوہر، سابق صدر بِل کلنٹن شامل ہیں۔
نئے سیاست دان نے بارہا اعلان کیا کہ اُن کا ہدف امریکہ کو ’’پھر سے عظیم تر بنانا ہے‘‘۔ اور ری پبلیکن پارٹی کے ارکان نے ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے سابق میزبان کی باتوں سے اتفاق کیا؛ اُنھوں نے بیس بال ہیٹ اور ٹی شرٹ پہنیں اور اپنے گھر کے آنگن اور لان میں حمایت کے پوسٹر آویزاں کیے کہ اُن کا ہدف بھی امریکہ کو پھر سے عظیم تر بنانا ہے۔
اب، عجلت سے کام لینے کے لیے مشہور، ٹرمپ ایک اہم امریکی سیاسی پارٹی کے صدارتی امیدوار بن چکے ہیں؛ اور چھ عشروں میں پہلی بار ایک ایسا شخص جنھوں نے سرکاری طور پر کسی منتخب عہدے پر کام نہیں کیا، وہ اس مقام پر پہنچا ہے۔ آٹھ نومبر کے قومی انتخابات میں اُن کا مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن سے ہوگا، اور جیتنے والا جنوری میں اوباما کا جانشین ہوگا۔
اپنے طور پر، کلنٹن بھی تاریخ ساز شخصیت ہوں گی کہ جیتنے کی صورت میں وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدار ہوں گی۔
رائے عامہ کے قومی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ-کلنٹن دوڑ سخت مرحلے میں داخل ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ کلنٹن کو اُن پر کچھ عددی سبقت حاصل ہے؛ ایسے میں جب وہ اگلے ہفتے پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں منعقد ہونے والے پارٹی کے قومی کنوینشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر صدارتی امیدوار بننے والی ہیں۔