امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ منگل کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے مستقبل کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کریں گے۔
پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں صدرٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران معاہدے سے متعلق اپنے فیصلے کا اعلان منگل کی دوپہر دو بجے (پاکستان کے وقت کے مطابق رات 11 بجے) وائٹ ہاؤس میں کریں گے۔
صدر ٹرمپ ابتدا سے ہی 2015ء میں ایران اور امریکہ سمیت چھ دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے ناقد رہے ہیں اور بارہا معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کی دھمکی دے چکے ہیں۔
ٹرمپ حکومت نے اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر نظرِ ثانی کے لیے 12 مئی کی ڈیڈلائن دے رکھی ہے۔
ٹرمپ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے باقی پانچ ملکوں - روس، چین، جرمنی ، فرانس اور برطانیہ - نے ڈیڈلائن سے قبل معاہدے میں موجود "خامیاں" دور نہ کیں تو امریکہ اس معاہدے سے نکل آئے گا اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردے گا۔
معاہدے میں شامل امریکہ کے اتحادی فرانس، جرمنی اور برطانیہ امریکہ کو یہ معاہدہ برقرار رکھنے پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ چین اور روس بھی معاہدہ برقرار رکھنے پر زور دے چکے ہیں۔
ایران کی قیادت واضح کرچکی ہے کہ وہ معاہدے پر مکمل طور پر عمل کر رہی ہے اور معاہدے کی کسی شق پر نظرِ ثانی کے لیے کوئی بات نہیں کی جائے گی۔
خدشہ ہے کہ اگر امریکی صدر نے معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تو ایران بھی اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کرے گا اور ممکن ہے کہ وہ اپنی جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کردے یا شام، عراق، یمن اور لبنان میں امریکہ کی اتحادی قوتوں کو نقصان پہنچائے۔
فرانس کے صدر پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر امریکہ نے معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو حالات کی خرابی کسی جنگ پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔
لیکن پیر کو اپنے ایک بیان میں ایران کے صدر حسن روحانی نے عندیہ دیا کہ اگر امریکہ معاہدے سے الگ ہوا بھی تو ایران باقی پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ برقرار رکھ سکتا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر کیے جانے والے براہِ راست خطاب میں صدر روحانی نے کہا تھا کہ ایران ہر طرح کے فیصلے کے لیے تیار ہے اور اگر معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر قوتوں نے ایران کے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تو ایران امریکہ کے نکلنے کے بعد بھی معاہدہ برقرار رکھے گا۔
اطلاعات ہیں کہ صدر ٹرمپ ایران معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں لیکن تاحال یہ تفصیلات واضح نہیں کہ ان کے اس فیصلے پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔
بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ اعلان کریں کہ وہ معاہدے سے مکمل طور پر الگ نہیں ہورہے لیکن اگر انہوں نے ایسا کوئی اعلان کیا بھی تو تاحال یہ واضح کہ اس کا مطلب کیا ہوگا۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم افزودہ کرنے کی اپنی صلاحیت انتہائی محدود کردی تھی جس کا مقصد عالمی برادری کو یہ یقین دلانا ہے کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا۔ جوہری سرگرمیوں میں کمی کے عوض عالمی طاقتوں نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بتدریج ہٹالی تھیں۔