شام میں کرد فورسز کو امریکہ کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی کی اجازت دیے جانے کے معاملے پر ترکی کی برہمی کے ایک ہفتے بعد ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں۔
توقع ہے کہ ملاقات میں باہمی اختلافات اور شام کی صورتحال سے متعلق تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
امریکہ کرد فورس 'وائے پی جی' کو داعش کے خلاف لڑائی کا ایک اہم عنصر تصور کرتا ہے جو کہ رقہ سے داعش کو نکال باہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
لیکن ترکی اس گروپ کو دہشت گرد قرار دیتا ہے کیونکہ ان کے بقول وائی پی جی کے کردستان ورکرز پارٹی سے روابط ہیں جس نے ترکی میں تین دہائیوں سے حکومت کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
اردوان امریکہ کی طرف سے شامی کرد فورس کو ہتھیاروں کی فراہمی کو "امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کے منافی قرار دیتے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ہی انھوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن کا دورہ "ترک امریکہ تعلقات کی ایک نئی شروعات" ہو گا۔
ترکی اور امریکہ دونوں ہی شام کی چھ سالہ خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والی باغی فورسز کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
توقع ہے کہ اردوان جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے معاملے پر بھی ٹرمپ سے بات کریں گے۔
گولن امریکہ میں مقیم ہیں اور اردوان انھیں گزشتہ جولائی میں اپنی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کا منصوبہ ساز تصور کرتے ہیں۔ لیکن یہ عمر رسیدہ مبلغ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
ترکی نے امریکہ سے گولن کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن اس پر تاحال کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آسکی ہے۔