امریکہ کی ایک وفاقی اپیل کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی کا حکم غیر آئینی تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے خلاف غیر قانونی طور پر امتياز برتا گیا تھا۔
ریاست ورجینیا کے صدر مقام رچمنڈ میں قائم فورتھ سرکٹ فیڈرل کورٹ آف اپیل نے 4 کے مقابلے میں 9 کے فیصلے میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور وہائٹ ہاؤس کے دوسرے عہدے داروں کے بیانات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صدارتی فرمان کی روح اور نیت غیر آئینی طور پر اسلام کے خلاف ہے۔
اپیل کورٹ نے سفری پابندی سے متعلق ایک نچلی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ لیکن اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے سفر سے متعلق حکم نامے پر اپنے آئندہ غور و خوض تک معطل کر دیا تھا۔
اس سے قبل سان فرانسسکو میں قائم نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیل سفری پابندی کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔
نائنتھ کورٹ کے تین رکنی پینل نے دسمبر کے آخر میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر اس بارے میں قانونی جواز فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ ملک میں ان ملکوں کے افراد کا داخلہ امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ تھا۔
یہ اس کے بعد سے تیسرا ایسا فیصلہ ہے جب دسمبر کے شروع میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سفر سے متعلق صدارتی حکم نامہ عدالتوں کے ذریعے اپنا راستہ بنا کر ہی موثر ہو سکتا ہے۔
صدارتی حکم نامے میں آٹھ ملکوں سے امریکہ آنے والوں پر پابندی لگائی گئی تھی جن میں سے چھ مسلم اکثریتی ملک تھے۔
توقع ہے کہ سپریم کورٹ اپریل میں صدارتی حکم نامے پر د لائل کی سماعت کرے گی۔
صدر ٹرمپ نے سفری پابندی کا پہلا حکم نامہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہفتے میں یہ کہتے ہوئے جاری کیا تھا اس سے ملک کو درپیش اہم سیکیورٹی خدشات کا ازالہ ہوگا۔