رسائی کے لنکس

تپ دق کے کیسز میں نمایاں اضافہ، کرونا وائرس کے باعث روک تھام کی کوششوں کو نقصان پہنچا


 تپ دق کے عالمی دن پر حیدراباد بھارت میں ٹی بی کے ایک مریض کا رشتے دار اس کے آکسیجن ماسک کو ایڈجسٹ کر رہا ہے: فوٹو اے پی
تپ دق کے عالمی دن پر حیدراباد بھارت میں ٹی بی کے ایک مریض کا رشتے دار اس کے آکسیجن ماسک کو ایڈجسٹ کر رہا ہے: فوٹو اے پی

عالمی ادارہ صحت نے جمعرات کے روز جاری اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں 2019 سے 2021 تک ٹی بی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا جس نےبرسوں کی پیش رفت کو پلٹ کر رکھ دیا کیوں کہ ان برسوں کے دوران کرونا کے عالمی بحران نے ٹی بی کے علاج اور ٹیسٹنگ تک رسائی کو متاثر کیا۔

اقوام متحدہ کے صحت کے ادارے ، ڈبلیو ایچ او کے گلوبل ٹی بی پروگرام کی ڈائریکٹر ٹریزا کساوا نے کہا ہے کہ لگ بھگ دو عشروں میں ادارہ پہلی بار ٹی بی اور ادویات کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ہونے والے لوگوں اور ٹی بی سے منسلک اموات کی تعداد میں اضافے کی رپورٹ دے رہا ہے ۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2021 میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ تپ دق میں مبتلا ہوئے ، جو 2020 کے مقابلے میں 4 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ تھا ۔

تقریباً ، ساڑھے چار لاکھ کیسز میں لوگ ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والی تپ دق کی انفیکشن میں مبتلا ہوئے ، جو 2020 سے 2021 کے دوران 3 فیصد اضافہ تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز بھارت ، انڈو نیشیا ، میانمار اور فلپائن میں رپورٹ ہوئے ۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا پینڈیمک کی وبا، ٹی بی کی تشخیص اور علاج تک رسائی میں مسلسل ایک نقصان دہ اثر ڈال رہی ہے ۔

ٹی بی کے علاج اور تشخیص کے لیے کوشاں غیر منافع بخش اداروں کے ایک اتحاد کے صدر ڈاکٹر میل اسپیگل مین کا کہنا ہے کہ کویڈ 19 کی پابندیوں ، مثلاً لاک ڈاون اور جسمانی دوریوں کی وجہ سے پہلے سے کم لوگ تشخیص اور علاج تک رسائی حاصل کر سکے اور پہلے سے کم لوگ ٹی بی کی تشخیص اور علاج کروا سکے، اس لیے پہلے سے زیادہ لوگوں نے انجانے میں بیماری کو دوسروں تک پھیلا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دس سال سے زیادہ عرصے میں اس مرض کے خلاف جوپیش رفت ہوئی تھی اس کو نقصان پہنچا۔

ٹی بی یا تپ دق کی بیماری ایک بیکٹیریا سے پیدا ہوتی ہے جو پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے ۔ یہ بیماری خاص طور پر ہوا کے ذریعے پھیلتی ہے ۔ کویڈ 19 کے بعد تپ دق دنیا کی سب سے مہلک متعدی بیماری ہے ۔

یہ بنیادی طور پر بالغوں کو متاثر کرتی ہے خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کے ان لوگوں کو جو غذائیت کی قلت کا شکار ہوتے ہیں ۔ 95 فیصد کیسز ترقی پذیر ملکوں میں ہوتے ہیں۔

کرونا بحران کے دوران عالمی معیشت کے انحطاط نے اس مسئلے کو اور بھی سنگین بنا دیا کیوں کہ خاندانوں کو ، خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں ، اپنے علاج کی وجہ سے سخت مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

جنوبی افریقہ میں "ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز" کی ڈاکٹر حنا اسپینسر نے تجویز دی ہے کہ کم آمدنی والے مریضوں کی مدد کے لیے ٹی بی کے علاج کی قیمت کو کم کر کے 500 ڈالر تک لانا چاہئے ۔ ؑعالمی ادارہ صحت، ڈبلیو ایچ او ،نے بھی تجویز دی ہے کہ مزید ملکوں کو ٹی بی کی تشخیص اور علاج کے لیے مالی معاونت کرنی چاہئے ۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریسس نے جمعرات کو ایک نیوز ریلیز میں کہا کہ پینڈیمک نے اگر ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم یک جہتی، پختہ عزم ، اختراع اور وسائل کے مساوی استعمال سے صحت کے سنگین خطرات پر قابو پا سکتے ہیں۔

"آئیے ان اسباق کا اطلاق تپ دق پر کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس پرانے قاتل کو روکا جائے۔"

اس رپورٹ میں کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور ایجنسی فرانس پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG