تیونس کے وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ دارالحکومت کے ایک عجائب گھر پر مسلح افراد کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 19 ہوگئی ہے جن میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
وزیرِاعظم الحبیب الصید نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں دونوں حملہ آور بھی مارے گئے ہیں جب کہ عجائب گھر میں یرغمال بنائے جانے والے سیاحوں کو رہا کرانے کی کارروائی میں دو سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیرِ اعظم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے 19 غیر ملکی سیاحوں کا تعلق پولینڈ، اٹلی، جرمنی اور اسپین سے ہے۔ حملے میں کم از کم 224 افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں دارالحکومت اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
حکام کے مطابق جدید اسلحے سے لیس دو ملزمان نے بدھ کو دارالحکومت کے 'نیشنل بردو میوزیم' پر حملہ کیا تھا جن کی شناخت حکام نے تاحال ظاہر نہیں کی ہے۔
جس وقت عجائب گھر پر حملہ کیا گیا اس وقت وہاں کئی غیر ملکیوں سمیت لگ بھگ 100 سیاح موجود تھے۔تیونس کے سرکاری ٹی وی پر نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں معمر سیاحوں اور بچوں کو سکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں عجائب گھر سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں کی جانب سے عجائب گھر میں یرغمال بنائے جانے والے تمام سیاحوں کو بحفاظت رہا کرالیا گیا ہے۔
عجائب گھر پر مسلح افراد کے حملے کے بعد پارلیمان کی عمارت کو بھی خالی کرالیا گیا تھا جو حملے کا نشانہ بننے والے عجائب گھر سے متصل ہے۔
تیونس کی رکنِ پارلیمان سعیدہ اونیسی نے 'ٹوئٹر' پر لکھا ہے کہ حملے کے وقت وزیرِانصاف، کئی جج اور فوجی افسران پارلیمان کی عمارت میں موجود تھے جہاں ایک اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کا جائزہ لیا جارہا تھا۔
حملے کا نشانہ بننے والے عجائب گھر کا شمار تیونس کے نمایاں ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے جہاں تیونس کی تاریخ اور رومن دور کے نوادرات رکھے گئے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران تیونس میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور مسلمان شدت پسندوں نے ملک میں کئی حملے کیے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندی سے متاثر کئی تیونسی باشندے عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کی صفوں میں شامل ہیں۔