ترک صدر رجب طیب اردوان بدھ کو تہران روانہ ہوں گے، جہاں وہ ایران کی مذہبی اور سیاسی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران، خطے کے ملکوں کی جانب سے اثر و رسوخ کے حصول کی دوڑ کے ضمن میں باہمی تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی ہے۔
لیکن، گذشتہ ماہ اُنھیں عراقی کردستان کی آزادی کے رنفرینڈم کی مخالفت نے ایک مشترکہ بنیاد فراہم کر دی ہے۔
پروفیسر جمشید اسدی، فرانس کے برگونڈی بزنیس اسکول میں ایران کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اردوان کے ایران کے دورے کے پیچھے عراقی کردستان کا بحران کارفرما ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’وہ (ایران اور ترکی) نہیں چاہتے کہ (عراقی) کردستان آزاد ہو، کیونکہ اُنھیں پتا ہے کہ اس سے دیگر ملکوں میں بھی اسی قسم کی بات چل پڑے گی، خاص طور پر ترکی اور ایران میں‘‘۔
ایران اور عراق کے ساتھ ساتھ ترکی میں بھی کُرد اقلیت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ ایک پیش رفت یہ دیکھی گئی ہے کہ عراقی فوج نے حال ہی میں ترکی کے ساتھ ایک مشترکہ فوجی مشق میں حصہ لیا ہے۔
دورے سے قبل، اردوان نے منگل کے روز پارلیمان سے خطاب میں کہا ہے کہ ’’شمالی عراق میں ریفرنڈم کا بحران ہمارے خطے کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے‘‘۔
جب سے عراقی کردوں نے آزادی کے حق میں 92 فی صد شرح سے ووٹ ڈالا ہے، ترک صدر سخت بیانات دے رہے ہیں۔
اردوان کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب ایرانی اور ترک افواج عراقی کرد سرحدوں کے گرد تعینات ہیں۔
تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تعیناتی محض ایک چال ہے۔
تجزیہ کار اسدی کہتے ہیں کہ ’’وہ (ایران اور ترکی) کردوں کے خلاف کسی مشترکہ فوجی کارروائی کے بارے میں کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے‘‘۔
اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اردوان کے دورے کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے دونوں فریق کی سوچ میں یکسوئی ہو۔