ترکی نے کہا ہے کہ تین خودکش بم حملہ آور، جنھوں نے استنبول کے ہوائی اڈے پر مہلک حملہ کیا، اُن کا تعلق روس، ازبکستان اور قرغیزستان سے تھا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ داعش کے لڑاکوں نے کیا۔ لیکن، اُنھوں نے حملہ آروں کا نام نہیں لیا، جن کے بارے میں اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے منگل کے روز اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مسافروں اور کارکنان پر وار کرنے والے حربی ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس کے بعد اُنھوں نے اپنے آپ کو بھک سے اڑا لیا۔
یورپ کے اس تیسرے مصروف ترین ہوائی اڈے پر ہونے والے اِن دھماکوں میں اموات کی تعداد بڑھ کر 43 ہوگئی ہے، جب کہ حملے میں 230 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
پولیس چھاپے
پولیس نے جمعرات کے روز استنبول کےتین مضافات میں واقع 16 مقامات پر چھاپے مارے جن میں 13 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن پر داعش سے تعلق کا شبہ ہے۔
مزید یہ کہ سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’انادولو‘ نے کہا ہے کہ حکام نے اِزمیر کے مغربی ساحلی شہر سے نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے جِن پر شام میں حربی طاقت دکھانے والے داعش کے دھڑوں کے ساتھ تعلقات ہیں جن میں اس گروپ کی مالی، بھرتی یا انتظامات میں مدد کی فراہمی کے اعتبار سے اعانت شامل ہے۔
وزیر اعظم بنالی یلدرم نے بدھ کے روز بتایا تھا کہ تفتیش جاری ہے۔ لیکن، اِس بات کا ثبوت مل رہا ہے کہ اِس میں داعش ملوث ہے، جب کہ شدت پسندوں نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ عین ممکن ہے کہ یہ حملہ ترکی کی جانب سے روس اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کے جواب میں کیا گیا ہو۔
امریکی ’سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی‘ کے سربراہ، جان برینن نے کہا ہے کہ اِن بم حملوں سے داعش کے ملوث ہونے کے خصوصی اشارے ملتے ہیں، جس سے دہشت گرد گروپ کی ’’مایوسی‘‘ کا پتا لگتا ہے، اور متنبہ کیا کہ اس قسم کے حملے کو روکنا ایک بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔