رسائی کے لنکس

ترک ہوائی اڈے پر حملہ، بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کا مظہر


استنبول
استنبول

ترکی میں دہشت گرد حملوں کا زور بڑھتا جا رہا ہے، جن میں سے متعدد کا نشانہ استنبول بن رہا ہے، جو تاریخی شہر کے علاوہ یورپی اور ایشیائی براعظموں کا سنگم خیال کیا جاتا ہے

منگل کو استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ پر ہونے والا خودکش حملہ، جس میں کم از کم 41 افراد ہلاک جب 200 سے زائد زخمی ہوئے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ترکی جو کسی وقت خطے میں استحکام کی علامت ہوا کرتا تھا، اپنے مقام سے لرز چکا ہے۔

ترکی میں دہشت گرد حملوں کا زور بڑھتا جا رہا ہے، جن میں سے متعدد کا نشانہ استنبول بن رہا ہے، جو تاریخی شہر کے علاوہ یورپی اور ایشیائی براعظموں کا سنگم خیال کیا جاتا ہے۔

اُس کی معیشت فروغ پاتی رہی ہے سیاحتی شعبہ خاصہ مضبوط ہے، ملک کی مالیاتی ترقی بکھرتی جا رہی ہے۔ گذشتہ سال سیاحوں کی آمد میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی۔

تازہ حملے کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم، ترک وزیر اعظم بنالی یلدرم نے کہا ہےکہ منگل کا حملہ داعش کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔

یہ 22 مارچ کو برسلز کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر داعش کے حملے کی طرح کی دہشت گردی ہے، جس میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

’انسٹی ٹیوٹ فور اسٹڈی آف وار‘ نے 5 جون سے 5 جولائی تک ماہ رمضان کے دوران ترکی میں داعش کے حملوں کی پیش گوئی کی تھی، جو دراصل اس انتہا پسند گروپ کی جانب سے حکمت عملی کے حامل اس خطے پر قبضہ جمانے کی ایک کوشش ہے۔

آئی ایس ڈبلیو نے کہا ہے کہ ’’داعش ہمسایہ ریاستوں میں ممکنہ اہداف منتخب کرے گی، تاکہ شام میں اس شدت پسند گروہ پر دباؤ میں کمی واقع ہو، جب کہ مستقبل میں اِن ریاستوں کے لیے شرائط طے کی جاسکیں’’۔

بقول اِس کے، یہ اہداف جن کا مقصد دوہری نوعیت کا ہے، اِس میں غیر ملکی سیاح، سرکاری سکیورٹی فورسز اور ترکی اور اردن میں امریکی فوجی عناصر شامل ہیں‘‘۔

منگل کو ہونے والے حملوں کے کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم یلدرم نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ اِن حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والے متعدد افراد غیر ملکی شہری تھے۔

علاقائی عوامل:

داعش

ترک سرزمین پر بڑھتے ہوئے دہشت گرد بم حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم، ترک حکومت متعدد حملوں کا الزام کرُد علیحدگی پسند ’پی کے کے‘ گروپ پر عائد کرتی ہے، جب کہ کئی ایک کی رائے میں اس کی ذمہ دار داعش ہے۔

استنبول سے رپورٹ دیتے ہوئے، ’وائس آف امریکہ‘ کے دوریان جونز کہتے ہیں کہ تجزیہ کار وں کے خیال میں داعش میں لڑاکوں کی ایک بڑی تعداد ترک شہری ہے۔

جونز کے مطابق، ذرائع بتاتے ہیں کہ داعش کی عراق میں حالیہ شکستوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ منگل کے ہوائی اڈے پر حملے کی شہ ملی ہو۔

ایک ماہ کی کارروائی کے بعد، اتوار کو عراقی افواج نے فلوجہ میں داعش کے آخری ٹھکانوں کو واگزار کرا لیا، جس کے بعد شدت پسندوں کے انتہائی مضبوط گڑھ پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا ہے۔

کرد

ترکی کا دعویٰ ہے کہ ہمسایہ شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے کُرد لڑاکے ’پی کے کے‘ کا دھڑا ہیں، جو سنہ 1970 کی دہائی سے ترکی کے اندر کرد خودمختاری کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

امریکہ کے اتحادی کرد لڑاکوں کے ساتھ ترکی کی مخاصمت جاری ہے، جس کے باعث اُس کی امریکہ کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوا، جب کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی اور شام میں روسی پشت پناہی والی حکومت کو نکالنے کے لیے امریکی اتحاد میں شامل ہے۔

ترکی کرد لڑاکوں پر بم باری کرتا ہے جنھیں وہ شام اور عراق میں ’پی کے کے‘ کے ساتھی گردانتا ہے، جب کہ وہ اپنی حدود کے اندر کرد تحریک کو کچلنے کی کوششیں کر رہا ہے، جس سے کردوں کی علیحدگی کی تحریک کے اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے۔

شام کا تنازعہ

شام کی خانہ جنگی کو اب پانچ برس سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور 804 کلومیٹر طویل ترک شام سرحد کے دونوں اطراف مسلح گروہ پھرتے ہیں۔

ترکی پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ غیر ملکی لڑاکوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دیتا ہے جو داعش جیسے گروپوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔

تقریباً 25 لاکھ شامی اس وقت ترکی میں مقیم ہیں، جس کے باعث ملک کے وسائل پر بوجھ بڑھا ہے اور ترک آبادی برہمی کا اظہار کر رہی ہے۔

عالمی سیاست

منگل کے حملے سے چند ہی روز قبل ترکی نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے گا، جو سنہ 2010ء کے واقعے کے بعد اُس وقت منقطع ہوگئے تھے، جب ترک سرگرم کارکنوں کی جانب سے فلسطینیون کو جانے والی امداد پر اسرائیلی بندش کو توڑنے کی کوشش کی گئی تھی، جنھیں غزہ کی پٹی کی جانب جاتے ہوئے اسرائیلی سکیورٹی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔

صدر رجب طیب اردوان نے اس ہفتے روس پیغام بھیجا، جو مراسلہ شام کے ساتھ ملک کی سرحد کے قریب روسی لڑاکا طیارہ گرائے جانے کے واقع پر معذرت پر مبنی تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اردوان کی اسرائیل اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش سے داعش برہم ہوسکتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ منگل کا حملہ اس بات کا ہی نتیجہ ہو۔

XS
SM
MD
LG