ترکی کے مختلف حصوں اور شمالی سائپرس میں بغاوت کے الزام میں مزید 223 حاضر سروس فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جن میں بری، فضائی اور بحری فوج کے اہل کار شامل ہیں۔
گرفتار ہونے والے فوجی اہل کاروں پر 2016 میں ناکام فوجی بغاوت کے 'نیٹ ورک انقرہ' سے تعلق کا الزام لگایا گیا ہے۔
ترکی کے خبر رساں ادارے 'ٹی آر ٹی' کے مطابق حکام ملک کے 49 صوبوں اور شمالی سائپرس میں ایسے مزید اہل کاروں کی تلاش میں ہیں۔ گرفتار ہونے والے 100 اہل کاروں کا تعلق بری فوج، 41 کا تعلق فضائیہ جب کہ 32 کا تعلق بحری فوج سے بتایا جا رہا ہے۔
ترکی کا یہ الزام رہا ہے کہ امریکہ میں خود ساختہ جلا وطن رہنما فتح اللہ گولن 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار تھے۔ حکام کا شبہ ہے کہ اب بھی گولن تحریک کے حمایتی نہ صرف فوج بلکہ مختلف سرکاری اداروں میں موجود ہیں۔
تین سال کے دوران ترکی میں ہزاروں فوجی اور سول افسران کو ناکام فوجی بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے اس معاملے میں سخت بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
حکام کے مطابق تین سال کے دوران لگ بھگ 77 ہزار سول اور فوجی حکام کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ جب کہ اس دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد سول اور فوجی ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کیا جا چکا ہے۔
ترکی کے مغربی اتحادی ایردوان حکومت کے ان اقدامات پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ مغربی ممالک کا یہ موقف رہا ہے کہ ایردوان حکومت اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے آمرانہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
ترکی کی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ گولن تحریک اس کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے خطرہ ہے جسے کچلنا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ 15 جولائی 2016 کی شب ترکی کی فوج کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم ڈھائی سو افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ترکی کے شہر استنبول میں بغاوت کی خبر سوشل میڈیا پر آتے ہی عوام سڑکوں پر نکل آئی تھی۔