ترکی نے جولائی میں ہونے والی ناکام بغاوت کی تحقیقات کرتے ہوئے مزید 15 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف اور 500 سے زائد اداروں کو بند کر دیا ہے۔
بین الاقوامی خبررساں ایجنسی "روئٹرز" کے مطابق منگل کو حکام کی طرف سے دو حکم ناموں میں ان برطرفیوں کا بتایا گیا۔
15 جولائی کی صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کر دی تھی لیکن ترک عوام نے اس کی مزاحمت کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا تھا۔
ناکام بغاوت کے بعد سے ترک حکومت اس میں کسی بھی طرح ملوث پائے جانے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتی آرہی ہے۔
تازہ برطرفیوں میں 1988 اہلکاروں کا تعلق ترک مسلح افواج سے ہے اور پولیس کے 7586 اہلکار شامل ہیں جب کہ پانچ ہزار سے زائد دیگر سرکاری محمکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ترکی میں اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سرکاری اہلکاروں کو برطرف کیا جا چکا ہے جب کہ 36 ہزار کے لگ بھگ پر مقدمات بنا کر انھیں جیل بھیجا جا چکا ہے۔
صدر اردوان اس ناکام بغاوت کی منصوبہ سازی کا الزام جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہیں لیکن گولن اس میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردد کر چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی ترک صدر اردوان نے پاکستان کے دورے کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ فتح اللہ گولن سے وابستہ "دہشت گرد تنظیمیں" نہ صرف ترکی بلکہ دیگر اسلامی ملکوں کے لیے بھی خطرہ ہیں اس سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔