انٹرنیٹ ہیکرز کے بین الاقوامی گروپ Anonymous نے اعلان کیا کہ ترک حکومت کی ویب سائٹس کو نشانہ بنایا جائے گا کیوں کہ حکومت کی تجویز ہے کہ انٹرنیٹ کو فلٹر کرنے کا نظام متعارف کرایا جائے۔ اس گروپ کی کوششوں کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ ترک حکام گذشتہ ہفتے کے حملوں کے لیے تیار تھے۔ چند دنوں کے اندر ہی، پولیس نے 32 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں نو نابالغ تھے۔
ترکی کی نیوز چینل NTV/MSNBC کے ٹکنالوجی ایڈیٹر، Noyan Ayan نے کہا کہ ان گرفتاریوں سے بڑا طاقتور پیغام ملا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں وہ اس مرحلے پر ان پر مقدمہ چلانا، یا انھیں سال بھر کے لیے جیل بھیجنا نہیں چاہتے۔ وہ ان کی تنبیہ کرنا چاہتے ہیں، اور معاشرے کو وارننگ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ حملہ ترکی کی ٹیلی کمیونیکیشنز ڈائریکٹریٹ کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا تھا کہ 22 اگست سے انٹرنیٹ کو لازمی طور پر فلٹر کیا جائے۔ بظاہر اس اقدام کا مقصد بچوں کی حفاظت کرنا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو چار فلٹروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہ فلٹر ایسی سائٹس کے خلاف مختلف درجے کی حفاظت فراہم کرتے ہیں جنھیں فحش سمجھا جاتا ہے۔
بلجی یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کے ماہر Yaman Akdeniz کہتے ہیں کہ انہیں اس اقدام پر تشویش ہے کیوں کہ جو سائٹس بلاک کی جائیں گی وہ خفیہ رہیں گی۔ انہیں یہ تشویش بھی ہے کہ فلٹرز کے ذریعے لوگوں کے انٹرنیٹ کے استعمال کی نگرانی کرنا ممکن ہو جائے گا۔ ان کے مطابق ’’انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر گھرانے کا ایک پروفائل ہو گا۔ انھیں ایک یوزر نیم اور پاس ورڈ دیا جائے گا تا کہ سرکاری حکام ان کے انٹرنیٹ کی رسائی کی نگرانی کر سکیں۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو کوئی اس سسٹم کو نظر انداز کرے گا، اس کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔‘‘
اس تجویز پر بین الاقوامی حلقوں میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس میں قائم Reporters without Borders میں انٹرنیٹ کی آزادی کی ذمہ دار Lucie Morillon کہتی ہیں کہ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہر گھرانے کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیئے کہ وہ خود یہ طے کرے کہ وہ اپنے کمپیوٹر میں کس قسم کا فلٹر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ حکومت کو نہیں کرنا چاہیئے۔ خاص طور سے ایسے ملک میں جہاں ہزاروں انٹر نیٹ سائٹس بلاک کی جا رہی ہوں، اور آن لائن صحافیوں اور ان کی تحریروں کو آن لائن شائع کرنے والوں کے خلاف عدالتوں میں بہت سے کیس چلائے جا رہے ہوں۔‘‘
آج کل 70,000 سے زیادہ سائٹس پر پابندی لگی ہوئی ہے جو یور پ کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔ اگرچہ ان میں بیشتر سائٹس فحش مواد کی وجہ سے ممنوع قرار دی گئی ہیں لیکن کچھ سیاسی سائٹز بھی پابندیوں کی زد میں آ گئی ہیں۔
گذشتہ مہینے مجوزہ فلٹرز کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوئے۔ یورپی یونین نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر، ٹیلی کمیونیکیشنز ڈائریکٹریٹ نے اپنے بعض ناقدین سے ملنے کے لیے ایک میٹنگ کا انتظام کیا، لیکن اب تک اس نے اپنے منصوبوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔
ٹیکنالوجی کے ماہر، Noyan کہتے ہیں کہ نئے کنٹرول لگانے کی ذہنیت میں اس زمانے سے بہت کم فرق ہے جب ترکی پر فوج کی حکومت تھی ۔ انھوں نے کہا کہ’’ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو قدامت پسند ہے اور کمپیوٹرز کے معاملے میں نا خواندہ ہے۔ اس معاشرے پر ایسے لوگوں کی حکومت رہی ہے جو خوف پھیلاتے ہیں۔ وہ چاہے حکمراں پارٹی ہو یا فوجی ٹولہ ہو، انھوں نے اپنے خلاف خیالی یا حقیقی دشمن تخلیق کر لیے اور لوگوں کو خوفزدہ کیا۔ اب موجودہ حکومت بھی یہی طریقے استعمال کر رہی ہے۔ ان کا نظریہ مختلف ہے لیکن ان کے طریقے وہی ہیں۔‘‘
نو منتخب حکمراں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی، جس کی جڑیں سیاسی اسلام میں ہیں، مسلسل یہ دلیل دیتی رہتی ہے کہ بچوں کی حفاظت کرنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اس ہفتے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جب وہ Google کے ایگزیکیوٹو سربراہ Eric Schmidt سے ملے۔ Schmidt ترکی پر انٹرنیٹ کی زیادہ آزادی کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ دو برس سے زیادہ عرصہ ہوا جب Google کی YouTube سائٹ ترکی میں ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ انہیں شاید سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔