ترکی میں پولیس نے ایک ممتاز صحافی کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر حکومت مخالف ’ٹویٹ‘ کرنے پر حراست میں لے لیا ہے۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق احمد سک، جو حکومت کے نقاد ہیں، کو جمعرات کو سوشل میڈیا پر اپنے 'ٹویٹ میں" دہشت گردی کا پروپیگنڈا" کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
احمد نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ انہیں گرفتار کر کے ( پولیس) اپنے ساتھ لے جا رہی ہے۔
انہوں نے ٹوئیڑ بیان میں کہا کہ "مجھے حراست میں لیا جا رہا ہے اور مجھے ایک ٹویٹ کی وجہ سے استغاثہ کے دفتر لے جایا جا رہا ہے۔"
دوسری طرف استنبول میں ناول نگار اسلی اردوان، مصنف نسیمہ اپائے اور کرد نواز اخبار ازگر گنزم کے کئی مدیروں اور اس کے ملازمین کے خلاف مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، اس اخبار کو رواں سال کے اوائل میں بند کر دیا گیا تھا۔
ان تمام افراد پر الزام ہے کہ ان کے پاس کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی رکنیت ہے۔
عدالت نے بعد ازاں مقدمے کے زیر التوا ہونے کی وجہ سے اسلی اردوان اور نسیمہ اپائے کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔
صحافی کے تحفظ کے لیے نیویارک میں قائم تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ' کے مطابق ترکی میں جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ملک میں کم از کم 81 صحافی جیل میں بند ہیں جب کہ درجنوں ذرائع ابلاغ کو بند کر دیا گیا ہے۔
ترکی میں صحافیوں اور اخبارات کے خلاف ہونے والی ان سخت کارروائیوں پر بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ترک صدر رجب طیب اردوان پر الزام عائد کیا کہ وہ اس ناکام بغاوت کو عذر بنا کر اختلاف رائے کو دبانا چاہتے ہیں۔