واشنگٹن —
ترکی کی ایک عدالت نے حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں گرفتار 330 حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران میں سے بیشتر کو جرم ثابت ہونے پر سزائیں سنادی ہیں۔
جمعے کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں عدالت نے مجوزہ بغاوت کے سرغنہ فوجی افسروں – فوج کے سابق سربراہ سیٹن دوان، فضائیہ کے سابق سربراہ ابراہیم فرطینہ اور بحریہ کے سابق سربراہ اوزدین اورنیک – کو ابتدائی طور پر عمر قید کی سزا سنائی جسے بعد میں اس بنیاد پر گھٹا کر 20 سال قید کردیا کہ مجوزہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی تھی۔
عدالت نے باقی ماندہ فوجی افسران کو – جن میں کئی حاضر سروس افسر بھی شامل ہیں – کو نسبتاً کم دورانیے کی قید کی سزائیں سنائی ہیں جب کہ مقدمے میں نامزد کیے گئے 34 افسران کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کردیا ہے۔
عدالت کا یہ فیصلہ 2003ء میں تیار کی گئی مجوزہ فوجی بغاوت کی سازش کے مقدمے کے اختتام پر سامنے آیا ہے جو لگ بھگ دو برس تک جاری رہا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ 'سلیج ہیمر' نامی اس مجوزہ منصوبے کے تحت ترک فوج نے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی تھی۔
استغاثہ کے مطابق سازش کے تحت ترک فوج نے پڑوسی ملک یونان کے ساتھ محاذ آرائی کرنا تھی جب کہ بعض عناصر کی جانب سے استنبول کی مساجد میں بم دھماکے کیے جاتے جس کے نتیجے میں ملک میں پیدا ہونے والی ابتری کا فائدہ اٹھا کر فوج حکومت کا تختہ الٹ دیتی۔
مقدمے میں نامزد ملزمان نے موقف اختیار کیا تھا کہ مجوزہ منصوبہ فوج کی جنگی مشقوں کے سلسلے میں تیار کیا گیا تھا جسے شواہد میں رد و بدل کرکے ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔
واضح رہے کہ ترک فوج خود کو ملک کی سیکولر بنیادوں کا محافظ قرار دیتی ہے اور اس کی وزیرِاعظم اردگان کی سربراہی میں قائم اسلام پسند حکومت کے ساتھ تعلقات میں اول روز سے کشیدگی چلی آرہی ہے۔
گزشتہ سال یہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب فوج کے چار اعلیٰ ترین افسران نے اچانک اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔
یاد رہے کہ ترک فوج 1960ء کے بعد سے اب تک چار جمہوری حکومتوں کو زبردستی اقتدار سے بے دخل کرچکی ہے تاہم وزیرِاعظم اردگان کی حکومت ترک سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ میں خاصی کمی لائی ہے۔
جمعے کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں عدالت نے مجوزہ بغاوت کے سرغنہ فوجی افسروں – فوج کے سابق سربراہ سیٹن دوان، فضائیہ کے سابق سربراہ ابراہیم فرطینہ اور بحریہ کے سابق سربراہ اوزدین اورنیک – کو ابتدائی طور پر عمر قید کی سزا سنائی جسے بعد میں اس بنیاد پر گھٹا کر 20 سال قید کردیا کہ مجوزہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی تھی۔
عدالت نے باقی ماندہ فوجی افسران کو – جن میں کئی حاضر سروس افسر بھی شامل ہیں – کو نسبتاً کم دورانیے کی قید کی سزائیں سنائی ہیں جب کہ مقدمے میں نامزد کیے گئے 34 افسران کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کردیا ہے۔
عدالت کا یہ فیصلہ 2003ء میں تیار کی گئی مجوزہ فوجی بغاوت کی سازش کے مقدمے کے اختتام پر سامنے آیا ہے جو لگ بھگ دو برس تک جاری رہا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ 'سلیج ہیمر' نامی اس مجوزہ منصوبے کے تحت ترک فوج نے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی تھی۔
استغاثہ کے مطابق سازش کے تحت ترک فوج نے پڑوسی ملک یونان کے ساتھ محاذ آرائی کرنا تھی جب کہ بعض عناصر کی جانب سے استنبول کی مساجد میں بم دھماکے کیے جاتے جس کے نتیجے میں ملک میں پیدا ہونے والی ابتری کا فائدہ اٹھا کر فوج حکومت کا تختہ الٹ دیتی۔
مقدمے میں نامزد ملزمان نے موقف اختیار کیا تھا کہ مجوزہ منصوبہ فوج کی جنگی مشقوں کے سلسلے میں تیار کیا گیا تھا جسے شواہد میں رد و بدل کرکے ان کے خلاف استعمال کیا گیا۔
واضح رہے کہ ترک فوج خود کو ملک کی سیکولر بنیادوں کا محافظ قرار دیتی ہے اور اس کی وزیرِاعظم اردگان کی سربراہی میں قائم اسلام پسند حکومت کے ساتھ تعلقات میں اول روز سے کشیدگی چلی آرہی ہے۔
گزشتہ سال یہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب فوج کے چار اعلیٰ ترین افسران نے اچانک اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔
یاد رہے کہ ترک فوج 1960ء کے بعد سے اب تک چار جمہوری حکومتوں کو زبردستی اقتدار سے بے دخل کرچکی ہے تاہم وزیرِاعظم اردگان کی حکومت ترک سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ میں خاصی کمی لائی ہے۔