ترک پارلیمینٹ کے اسپیکر Cemil Cicek نے ممتاز آئینی ماہرین کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو جدید بنانے اور یورپی یونین کی رکنیت کا ہدف حاصل کرنے کے لیئے نیا آئین بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ فوجی دور کا آئین ظلم کی علامت ہے اور اس میں آزادیوں کا فقدان ہے، اور یہ اجتماع اسے تبدیل کرنے کی جانب پہلا قدم ہے ۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پر سب متفق ہیں۔ پارلیمینٹ کے رکن اور حکمراں اے کے پارٹی کے سینیئر ممبر وولکان بوذکر کہتے ہیں کہ اس اتفاق ِ رائے کی بنیاد پر، اس عمل میں سب کوشامل ہونا چاہئیے۔
’’پورے نظام کا اصل ستون آئین ہے ۔ ہمارا آج کل کا آئین1980 کے دور کی پیداوار ہے جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔ یہ آئین آزادی کی سوچ کا علمبردار نہیں ہے ۔ ہمیں نیا آئین بنانا چاہئیے لیکن اس آئین سے سب کو مطمئن ہونا چاہیے ، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کے احساسات کو مد نظر رکھا جائے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس پر عوامی ریفرینڈم ہونا چاہئیے۔‘‘
حکومت نے تمام پارلیمانی پارٹیوں سے مشورہ کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ لیکن اس پر توسب متفق ہیں کہ آئین میں اصلاح ضروری ہے، لیکن اصلاح کی نوعیت کے بارے میں سخت اختلافات موجود ہیں۔ وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظامِ حکومت کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیاں ان کی اس تجویز کی سخت مخالف ہیں۔ گذشتہ جون کے انتخاب میں مسٹر اردوان کو 50 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اس لیے سیاسی کالم نگار Asli Aydintasbas انتباہ کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی جو بات کی جارہی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ محض کہنے کی بات ہو۔’’انہیں مصالحت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور اتفاق ِ رائے کے بارے میں اس پوری گفتگو کا مصالحت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ ہم کہیں کہ آئیے ہم ایک میز کے گرد بیٹھیں، اور طے کریں کہ پچاس فیصد لوگ کیا چاہتے ہیں۔ لوگ نئے آئین کے بارے میں جس وسیع اتفاقِ رائے کی باتیں کر رہے ہیں، میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
ملک میں کردوں کی حامی سب سےبڑی پارٹی ، بی ڈی پی، کے ارکان نے پارلیمینٹ کا حلف اٹھانے سے انکار کر دیا ہے کیوں کہ ان کے چھ ساتھی جیل میں ہیں، اگرچہ پارلیمینٹ کے رکن کی حیثیت سے انہیں گرفتار ی سے استثنا حاصل ہے ۔ آئینی اصلاح کا عمل حکومت اور کرد باغیوں کے گروپ پی کے کے، کے درمیان لڑائی میں تیزی آ نے کی وجہ سے، پہلے ہی متاثر ہو چکا ہے ۔ بی ڈی پی، کے ارکان کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔ 55 افراد حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف قوانین کے تحت گرفتار کیے گئے ہیں۔
سیاسیات کے ماہر سولی اوزل انتباہ کرتے ہیں کہ آئینی اصلاح کا پورا عمل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ شہریت کی تعریف کس طرح کی جائے۔ اگر کرد قوم پرستوں کو شہریت سے خارج کر دیا جاتا ہے، تو پھر یہ لولا لنگڑا آئین ہو گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حکومت نےاس حقیقت پر تکیہ کیا ہوا ہے کہ اسے کردوں کی ترجمانی کا حق بھی حاصل ہے کیوں کہ ملک میں اسے تقریباً 50 فیصد کردش ووٹ مل جاتے ہیں۔‘‘
لیکن کردوں کی حامی بی ڈی پی، کی قیادت نے کہا ہے کہ اگر حکومت یہ وعدہ کرے کہ وہ سرحدپار شمالی عراق میں پی کے کے، کے اڈوں کے خلاف اپنی کارروائیاں بند کر دے گی ، تو وہ اپنا بائیکاٹ ختم کر دے گی۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پی کے کے، کے لیڈر عبداللہ اوکالان کو،جو قیدمیں ہیں، الگ تھلگ رکھنے کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکومت یہ مطالبات پورے کرے گی یا نہیں۔ لیکن پارلیمینٹ کے رکن بوذکر کا خیال ہے کہ آئینی عمل میں پارلیمانی سیاسی شرکت بہت وسیع ہو گی۔’’ہو سکتا ہے کہ پارلیمینٹ میں بہت سخت باتیں کہی جائیں۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن جب ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جن کا تعلق قومی مفادسے ہے، تو مجھے پوری امید ہے کہ ہمیں حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو اس عمل میں شریک کرنا ہوگا، ان کے خیالات کووزن دینا ہوگا، اور آئین کو ایک مشترکہ پراجیکٹ بنانا ہوگا۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ نئے آئین سے ترکی ایک جدید جمہوریت میں تبدیل ہو جائے گا جس کے ذریعے اس کے معاشرے میں موجود گہرے اختلافات طے ہونے کی صورت نکل آئے گی۔ لیکن یہ گہرے اختلافات ابھی سے حکومت کی ان کوششوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں جو وہ ملک کو اس کے فوجی ماضی کے آخری بندھنوں سے آزاد کرنے کے لیے کر رہی ہے۔