ترکی میں ٹیلی ویژن کے ایک معروف ٹاک شو کی میزبان نے اپنی ایک دوست کو اپنے شوہر کی دوسری بیوی بننے کی پیش کش کرکے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
سیبل ارسین نے اپنے ایک شو میں کہا تھا کہ کئی لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر تمہارا خاوند دوسری شادی کرنا چاہے تو تم کیا کروگی یا یہ کہ اگر تمہیں کسی شخص کی دوسری بیوی بننا پڑے تو تمہارا ردعمل کیا ہوگا؟ ارسین کہتی ہیں کہ میں نے یہی سوال اپنے شوہر کے سامنے رکھا اور کہا کہ میری ایک دوست ہے۔ اگر تم اس سے شادی کرنا چاہو تو میں تمہیں اس کی اجازت دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے انکار کردیا۔
مگر انکار سے بات ختم نہیں ہوئی بلکہ ترکی میں ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔
اسلام میں مردوں کو چاربیویاں رکھنے کی اجازت ہے لیکن 1923ء میں جب ترکی میں سیکولر جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی تھی تو ایک سے زیادہ شادیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیاتھا۔
لیکن خواتین کی حقوق کی ایک سرگرم کارکن پنار اکاراکن، جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیوں پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں کہ اس قانون کے باوجودترکی کے کئی علاقوں میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج عام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں اپنی تحقیق سے پتا چلا کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ترکی میں تقریباً 11 فی صدافراد کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ مغربی ترقی میں یہ ایک مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے انقرہ، استنبول اور ازمیر جیسے بڑے شہروں میں بھی لوگوں کی ایک سے زیادہ بیویاں دیکھیں۔یہ ان خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جو اپنے شوہر کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بنتی ہیں۔کیونکہ ان کے پاس سرے سے کوئی قانونی حق موجود نہیں ہوتا۔ انہیں وراثت میں حصہ نہیں ملتا،طلاق ہونے پر کچھ نہیں ملتا، اولاد پر ان کا حق نہیں ہوتا۔ اگر خاوند انہیں چھوڑ دے تو کوئی خرچہ نہیں ملتا۔
انہوں نے حکمران جماعت اے کے پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ اس مسئلےپر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔اور اس سلسلے میں قانون کی موجودگی کے باوجود ان کے دس سالہ دور اقتدار میں دوسری شادی پر کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
ترکی کی خاندانی امور کی وزیر فاطمہ ساہن نے اس مہینے خواتین کے تحفظ کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا تھا ، جس میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں روکنا بھی شامل ہے۔
ترکی میں ایسی شادیاں خلاف معمول نہیں ہیں جن میں کوئی بوڑھا مرد خود سے کئی عشرے چھوٹی لڑکی کو اپنی بیوی بنا لیتا ہے۔
خواتین کے تحفظ کی اصلاحات لانے کا ایک مقصد یورپی یونین میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا ہے کیونکہ یورپ میں ترکی کی خواتین کے حقوق پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بظاہر ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ ترکی میں مردوں پر ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔
سیبل ارسین نے اپنے ایک شو میں کہا تھا کہ کئی لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر تمہارا خاوند دوسری شادی کرنا چاہے تو تم کیا کروگی یا یہ کہ اگر تمہیں کسی شخص کی دوسری بیوی بننا پڑے تو تمہارا ردعمل کیا ہوگا؟ ارسین کہتی ہیں کہ میں نے یہی سوال اپنے شوہر کے سامنے رکھا اور کہا کہ میری ایک دوست ہے۔ اگر تم اس سے شادی کرنا چاہو تو میں تمہیں اس کی اجازت دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند نے انکار کردیا۔
مگر انکار سے بات ختم نہیں ہوئی بلکہ ترکی میں ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔
اسلام میں مردوں کو چاربیویاں رکھنے کی اجازت ہے لیکن 1923ء میں جب ترکی میں سیکولر جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی تھی تو ایک سے زیادہ شادیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیاتھا۔
لیکن خواتین کی حقوق کی ایک سرگرم کارکن پنار اکاراکن، جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیوں پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں کہ اس قانون کے باوجودترکی کے کئی علاقوں میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج عام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں اپنی تحقیق سے پتا چلا کہ جنوبی اور جنوب مشرقی ترکی میں تقریباً 11 فی صدافراد کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ مغربی ترقی میں یہ ایک مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے انقرہ، استنبول اور ازمیر جیسے بڑے شہروں میں بھی لوگوں کی ایک سے زیادہ بیویاں دیکھیں۔یہ ان خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جو اپنے شوہر کی دوسری، تیسری یا چوتھی بیوی بنتی ہیں۔کیونکہ ان کے پاس سرے سے کوئی قانونی حق موجود نہیں ہوتا۔ انہیں وراثت میں حصہ نہیں ملتا،طلاق ہونے پر کچھ نہیں ملتا، اولاد پر ان کا حق نہیں ہوتا۔ اگر خاوند انہیں چھوڑ دے تو کوئی خرچہ نہیں ملتا۔
انہوں نے حکمران جماعت اے کے پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ اس مسئلےپر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔اور اس سلسلے میں قانون کی موجودگی کے باوجود ان کے دس سالہ دور اقتدار میں دوسری شادی پر کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
ترکی کی خاندانی امور کی وزیر فاطمہ ساہن نے اس مہینے خواتین کے تحفظ کے لیے اصلاحات کا اعلان کیا تھا ، جس میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں روکنا بھی شامل ہے۔
ترکی میں ایسی شادیاں خلاف معمول نہیں ہیں جن میں کوئی بوڑھا مرد خود سے کئی عشرے چھوٹی لڑکی کو اپنی بیوی بنا لیتا ہے۔
خواتین کے تحفظ کی اصلاحات لانے کا ایک مقصد یورپی یونین میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا ہے کیونکہ یورپ میں ترکی کی خواتین کے حقوق پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بظاہر ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ ترکی میں مردوں پر ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔