اطلاعات ہیں کہ ترکی اور روس نے شام کے بارے میں جنگ بندی کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے خواہاں ہیں کہ اس پر نصف شب سے نفاذ عمل میں آئے۔
ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے، ’انادولو‘ نے اطلاع دی ہے کہ نئے منصوبے کا مقصد جنگ بندی کو حلب شہر تک وسعت دینا ہے۔ لیکن، اس میں دہشت گرد گروپ شامل نہیں ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ کے حوالے سے رائٹرز نے بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد کے اقتدار میں رہنے سے متعلق ترکی کا نااتفاقی پر مشتمل مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔
مولوت کواسگلو نے کہا ہے کہ ’’شام کے حل سے متعلق دو طرح کے متن تیار ہیں۔ ایک کا تعلق سیاسی حل سے، جب کہ دوسرا جنگ بندی کے بارے میں ہے۔ اُن پر کسی بھی وقت عمل درآمد کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ترکی کے وزیر خارجہ انقرہ میں صدارتی محل میں منعقدہ ایوارڈز کی تقریب کے دوران اخباری نمائندوں سے بات کر رہے تھے۔
گذشتہ ہفتے، روس، ایران اور ترکی نے ایک اعلامیہ منظور کیا تھا جس میں شام سے متعلق کسی ممکنہ سمجھوتے کے طے ہونے کی صورت میں دی گئی ہدایات کی پاسداری کے لیے کہا گیا تھا۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ تنازع کے حل کے لیے ان ملکوں نے قزاقستان کے دارالحکومت، آستانہ میں گفت و شنید پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
حلب کے حالیہ انخلا کے بارے میں پیوٹن نے کہا ہے کہ یہ ’’جدید دنیا کا بین الاقوامی انسانی ہمدری کی بنیاد پر سب سے بڑا انخلا تھا‘‘ اور یہ روس، ترکی، ایران کے ’’قریبی رابطے‘‘ اور ’’شامی صدر اسد کی نیک خواہشات اور کام کے بغیر‘‘ ممکن نہ ہوتا۔
شامی باغیوں کے ایک ذریعے نے، جس نے گمنام رہنے کی التجا کی ہے، اے ایف پی کو بتایا کہ حزب مخالف کو جنگ بندی کے نئے معاہدے کی تفاصیل موصول نہیں ہوئیں، اور مزید کہا کہ اس وقت کوئی سمجھوتا موجود نہیں ہے۔