|
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان پیر کے روز پڑوسی ملک عراق کے دورے پر گئے ہیں جس میں پانی، تیل اور علاقائی سلامتی کے مسائل بات چیت کے ایجنڈے پر سرفہرست ہیں۔ ترک صدر کاکئی برسوں میں یہ عراق کا پہلا دورہ ہے۔
بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر عراقی وزیراعظم محمد شیعہ السوڈانی نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ترک صدر کو 21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔ بعد ازاں انہوں نے عراق کے صدر عبدالطیف راشد سے ملاقات کی۔
ایروان نے اس سے قبل عراق کا دورہ 2011 میں کیا تھا۔ اس کے بعد سے خطے کے حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کا موجودہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب غزہ کی پٹی میں اسرائیل حماس جنگ اور اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک دوسرے پر حملوں کی وجہ سے علاقائی کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔
ترک صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایردوان نے اپنے عراقی ہم منصب راشد سے کہا کہ ترکیہ، دہشت گرد گروپ ’پی کے کے ‘کے خلاف جنگ کے سلسلے میں عراق سے توقعات رکھتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق کو ہر قسم کی دہشت گردی سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے۔
کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) عشروں سے ترکی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اسے انقرہ اور اس کے مغربی اتحادی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ پی کے کے اور ترکی کی فوج، دونوں ہی عراق میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔
پیر کے روز ترک صدر ایردوان اور عراقی وزیراعظم السوڈانی کے درمیان ملاقات میں متنازع مسائل پر بات چیت کے دوران دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دورے سے اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے منصبوں کے ساتھ بات چیت میں اس پختہ یقین کا اظہار کیا کہ عراق ’پی کے کے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دے گا اور اس گروپ کا وجود عراق سے ختم ہو جائے گا۔
ترکیہ کئی عشروں سے عراق کے شمالی حصے میں ’پی کے کے‘ کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔ لیکن عراق کے اندر گہرائی تک کی جانے والی فوجی کارروائیاں، دو طرفہ رابطوں میں کشیدگی کا باعث بنتی ہیں، جب کہ انقرہ یہ چاہتا ہے کہ بغداد ’پی کے کے، کے خلاف آپریشن میں اس کی مدد کرے۔
السوڈانی نے پیر کے روز دو طرفہ سیکیورٹی تعاون کی تجویز پیش کی جو عراق اور ترکیہ دونوں کی ضروریات پوری کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے مسلح عناصر کی موجودگی سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ممکن ہو سکے گا۔
لیکن اس سے قبل مارچ میں ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں عراق کے وزیر دفاع ثابت العباسی نے مشرقی فوجی کارروائیوں کو مسترد کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مناسب وقت اور مقام پر انٹیلی جینس میں تعاون کے لیے ایک مرکز قائم کریں گے۔
سیکیورٹی کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان دوسرے متنازع مسائل میں پانی اور قیمتی وسائل کی تقسیم شامل ہے۔
دریائے دجلہ اور دریائے فرات دونوں ملکوں کے درمیان بہتے ہیں اور انہیں اپنی ضروریات کے لیے آبی وسائل مہیا کرتے ہیں۔ ان دونوں دریاؤں پر ترکیہ کے اندر ڈیموں کی تعمیر پر عراق اعتراض کرتا ہے ۔اس کا کہنا ہے اس سے عراق میں پانی کا بہاؤ گھٹ گیا ہے اور اس کے لیے پانی کی سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔
پیر کے روز اس دورے کے موقع پر دونوں ملکوں نے پانی پر ایک دس سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم