شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ترکی کے شہر استنبول میں سال نو کے موقع پر ایک نائیٹ کلب پر حملے میں ملوث ہے۔
اس تنظیم کی طرف سے پیر کو ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ کارروائی ’’خلافت کے ایک سپاہی‘‘ نے کی۔
اُدھر ترک حکام نائیٹ کلب پر حملہ کرنے والے مسلح شخص کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہفتے کی شب اس حملے میں غیر ملکی شہریوں سمیت 39 افراد ہلاک جب کہ لگ بھگ 70 افراد زخمی ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں 25 غیر ملکی شامل تھے جن میں اُردن، لبنان، اسرائیل، سعودی عرب، عراق اور کینیڈا کے شہری شامل ہیں۔
ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا کہ عہدیداروں کے پاس مشتبہ شخص سے متعلق کوئی ’’واضح‘‘ معلومات نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’کچھ تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئی ہیں، لیکن انتظامیہ ٹھوس نتائج کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘
استنبول کے پوش علاقے میں واقع جب ایک نائیٹ کلب پر حملہ کیا گیا تو اس وقت وہاں لگ بھگ 600 افراد موجود تھے اور ان میں بہت سے افراد نے آبنائے باسفورس میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں بچائیں۔
عہدیداروں کے مطابق حملے کے بعد جب لوگ کلب سے نکل رہے تھے تو اُن ہی کے بھیس میں حملہ آور بھی وہاں سے چلا گیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ایک تحریری بیان میں اسے ایک ظالمانہ حملہ قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ترکی متحد رہے گا اور دہشت گردوں کے گندے کھیل کو راستہ نہیں دیا جائے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’قابل نفرت حملہ‘‘ قرار دیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ فائرنگ کے اس واقعہ کے ذمہ داروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کے نام ایک پیغام میں روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے دہشت گردی کے خلاف روس کی مدد کے عزم کو دہرایا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ اس طرح کا حملہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزم کو مزید مستحکم بناتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں دہشت گرد حملوں کے بعد ترکی کے بڑے شہروں میں سکیورٹی پہلے ہی مزید بڑھا دی گئی ہے۔
دسمبر میں استنبول میں ایک فٹبال اسٹیڈیم کے قریب بم دھماکوں میں 38 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے تھے۔
کرد جنگجوؤں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
گزشتہ سال جون میں استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر حملے میں 40 افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔‘‘