رسائی کے لنکس

ترکی: مساجد میں خواتین کے لیے سہولتیں بہتر بنانے کی کوشش


ترکی: مساجد میں خواتین کے لیے سہولتیں بہتر بنانے کی کوشش
ترکی: مساجد میں خواتین کے لیے سہولتیں بہتر بنانے کی کوشش

ترکی کے سب سے بڑے شہر، استنبول کی مسجدوں میں انقلاب برپا ہو رہا ہے ۔ ان مسجدوں میں عورتوں کے لیے سہولتیں بہتر بنانے کے ایک پراجیکٹ پر کام شروع ہو گیا ہے ۔ لیکن اس پراجیکٹ کے بارے میں کچھ اختلافات بھی پیدا ہوئے ہیں۔

Kadriye Avci Erdemli استنبول کی نائب مفتی ہیں ۔ شہر کے مذہبی امور کی دیکھ بھال کرنے والوں میں یہ دوسرا اہم ترین عہدہ ہے۔ وہ ایک اہم پروگرام کی انچارج ہیں جس کا مقصد مسجدوں کو عورتوں کے لیے زیادہ پُر کشش اور آرام دہ بنانا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’مسلمان دنیا میں یہ اپنی قسم کا پہلا پراجیکٹ ہے ۔ جب کوئی عورت مسجد میں قدم رکھتی ہے تو وہ خدا کے گھر میں داخل ہوتی ہے اور اسے تقدس اور احترام کو وہی تجربہ ہونا چاہیئے جو مردوں کو ہوتا ہے۔ اللہ کی نظر میں مرد اور عورتیں برابر ہیں۔‘‘

مارچ سے اب تک Erdemli نے استنبول کی تقریباً 3000 مسجدوں میں درجنوں ٹیمیں بھیجی ہیں تا کہ وہ عورتوں کے لیے سہولتوں کا معائنہ کریں ۔ Erdemli کہتی ہیں کہ جو کچھ پتہ چلا ہے وہ افسوسناک ہے۔’’بہت سی مسجدوں میں عورتوں کے لیے غسل خانے نہیں تھے بلکہ وضو کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ عورتوں کے لیے مخصوص حصے میں یا تو صفائی کا بندوبست نہیں تھا یا اسے سامان اسٹور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘‘

لیکن بات صرف مسجدوں میں صفائی کی نہیں ہے۔ مسجدوں میں عورتوں اور مردوں کے حصوں کے درمیان دیوار یں یا پردے بھی ہٹا دیے جائیں گے، اگرچہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے۔

لیکن تبدیلی لانا آسان نہیں ہوتا، خاص طور سے مذہب کے شعبے میں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران، Erdemli نے پورے شہر کے اماموں اور علما ء کے ساتھ 40 میٹنگیں کی ہیں جن میں انھوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ اصلاحات قرآن کے مطابق ہیں۔

استنبول کی سڑکوں پر اکثر مذہبی عورتیں ان اصلاحات کی حامی ہیں۔ 30 سالہ ایز گل جیسے خیالات عام ہیں’’مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے لیے جگہ بہت تنگ ہوتی ہے ۔ پیچھے کونے میں بچی کھچی جگہ انہیں دے دی جاتی ہے ۔عورتوں کو نماز کے لیے زیادہ صاف اور کشادہ جگہ ملنی چاہیئے ۔‘‘

ایز گل ترکی کے تیزی سے پھیلتے ہوئے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جو گذشتہ عشرے کے دوران اسلام پسند AK پارٹی کے دورِ حکومت میں ابھرا ہے ۔ AK پارٹی نے سر پر حجاب لینے والی عورتوں پر سے تعلیم اور روزگار میں حصہ لینے پر پابندیاں بھی ختم یا نرم کر دی ہیں۔

استنبول کی ڈوگس یونیورسٹی کے پروفیسر استار گوزایدین کہتے ہیں کہ مسجدوں میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ یہ ہے کہ اب مختلف پیشوں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد روز افزوں ہے۔’’اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی اور گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی مسلمان عورتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ معاشرے میں ہر طرف نظر آنے لگی ہیں۔ اس سے پہلے عورتیں اپنے گھروں میں بچوں کی دیکھ بھال کا روایتی کام کرتی تھیں۔ اب زیادہ سے زیادہ عورتیں مختلف پیشوں میں شرکت کر رہی ہیں اور وہ مسجدوں کے نظام میں بھی حصہ لینا چاہتی ہیں۔‘‘

لیکن یہ تبدیلی سب لوگوں کو پسند نہیں آئی ہے ۔ اسلامی رجحانات رکھنے والے اخبارات میں عورتوں کے گھر کے باہر کام کرنے اور مغربی طرز ِ زندگی اختیار کرنے پر تنقید کی گئی ہے ۔ اور مذہبی مرد بھی اس تنقید میں شامل ہو گئے ہیں۔

استنبول کی سلیمانیہ مسجد میں اذان کی آواز گونج رہی ہے۔ یہاں بہت سے لوگ ان نئے رجحانات پر خوش نہیں ہیں۔ 50 سالہ محمد گل مقامی دوکاندار ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں عورت کی صحیح جگہ اس کا گھر ہے۔ انہیں نماز گھر پر پڑھنی چاہیئے ۔ مسجدوں میں تو مردوں تک کے لیے جگہ نہیں ہوتی، خاص طور سے جمعے کی نماز میں، یا مذہبی تہواروں کے موقع پر۔ عورتوں کا مسجد میں آنا صحیح نہیں ہے ۔‘‘

لیکن کچھ عورتوں کو بھی ان نئے رجحانات پر اعتراض ہے، خاص طور سے نماز پڑھنے والے مردوں اور عورتوں کے درمیان پردے اور دیواریں ختم کرنے پر ۔ ایک خاتون کہتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں سے الگ رکھنا چاہیئے ۔ بیچ میں پردہ ضروری ہے۔ یہ مذہب کا تقاضہ ہے ۔عورتیں محرم ہوتی ہیں اور ان پر مردوں کی نظر نہیں پڑنی چاہیئے ۔

نائب مفتی Erdemli تسلیم کرتی ہیں کہ مسلمان عورتوں کے دل و دماغ جتینے کے لیے بھی ابھی بہت کام کرنا باقی ہے ۔ لیکن انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ اب حالات پرانی ڈگر پر واپس نہیں جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG