ترکی کی ایک عدالت کو ان دو صحافیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں بغاوت کے مقدمے کا سامنا ہے۔ جن افراد کی رہائی کا عدالت نے حکم دیا ہے ان میں جمہوریت اخبار کے مدیر اعلیٰ مراد سبنجو اور صحافی احمد سک شامل ہیں۔
تاہم جمہوریت اخبار کا کہنا ہے کہ ان کے چیف ایگزیکٹو اکن اطالی کو مقدمے کی آئندہ سماعت تک حراست میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جو 16 مارچ کو ہو گی۔
استغاثہ کا الزام ہے کہ 'جمہوریت' مکمل طور پر امریکہ میں مقیم ترک مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں کے کنٹرول میں چلا گیا جن پر الزام ہے کہ انہوں نے 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اخبار اور اس کا عملہ ان الزامات سے انکار کرتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں نشانہ بنانے کا مقصد صدر طیب اردوان کے نقادوں کو خاموش کرانا ہے۔
استغاثہ اخبار کے عملے کے لیے 43 سال قید کی سز ا چاہتا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ صدر اردوان کے خلاف ہونے والی بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔
ان کے خلاف عائد کی جانے والی فرد جرم کی بنیاد سوشل میڈیا پوسٹ کو بنایا گیا ہے اور اس کے علاوہ ان پر الزام ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کے ساتھ رابطے میں تھے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے ٹوئٹر پر کہا کہ کہ ایسے فیصلے کا ایک عرصے سے انتظار تھا اور تنظیم نے قید تمام صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنی رہائی کے بعد سبنجو نے کہا کہ انھیں اس پر خوشی نہیں کیونکہ کئی صحافی اب بھی جیل میں بند ہیں۔
سبنجو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں رہا کردیا گیا ہے کیونکہ ہماری رہائی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترکی میں اظہار رائے کی آزادی سے متعلق صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔"
ترکی کے صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ ترکی میں 150 میڈیا کے اداروں کو بند جبکہ 160 صحافیوں کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔
جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تھی اور اس بغاوت کی حمایت کرنے کے الزام میں کم ازکم ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین برطرف کر دیے گئے جب کہ مزید 50 ہزار فتح اللہ گولن کی تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتارکر لیا گیا۔