ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں ترک سکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں 32 مبینہ کرد جنگجوہلاک ہوگئے ہیں۔
ترکی کے فوجی اور سکیورٹی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ کارروائیاں رواں ہفتے کے اختتام پر کی گئیں۔
گزشتہ سال جولائی میں ترک حکومت اور کرد علیحدگی پسندوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد ایک روز میں ہونے والی ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہفتے کو شام اور عراق کی سرحدوں کےنزدیک واقع قصبوں سیزر اور سیلوپی میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں جن میں 16 مبینہ علیحدگی پسند جنگجو ہلاک ہوئے۔
ترک مسلح افواج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق چار علیحدگی پسند جنگجو کرد اکثریتی شہر دیار باکیر کے تاریخی ضلعے سور میں ہلاک ہوئے۔
بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز کی جانب سے گزشتہ ماہ شروع کیے جانے والے آپریشن اور کرفیو کے دوران اب تک ان تینوں علاقوں میں کل 448 کرد جنگجو مارے جاچکے ہیں جس سے تنازع کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ترک سکیورٹی حکام کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب جنوب مشرقی شہر وان میں ترک پولیس کے ایک مشتبہ مکان پر چھاپے کے دوران مزید 12 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
چھاپے کے دوران جنگجووں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی بھی ہوئے۔
ترکی میں کرد علیحدگی پسند تنظیم 'پی کے کے' کی جانب سے 1984ء میں شروع کی جانے والی مسلح تحریک کے دوران اب تک 40 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔
ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے 'پی کے کے' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے جو اپنے تئیں ترکی میں کردوں کے حقوق اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہی ہے۔
اس سے قبل جمعے کو بھی ترک سکیورٹی فورسز نے سیزر اور سور میں کئی مقامات پر چھاپے مارے تھے جن میں مبینہ طور پر 16 کرد جنگجو مارے گئے تھے۔
کرد جنگجووں اور ترک سکیورٹی اداروں کے درمیان ماضی میں شہروں سے دور یا نواحی علاقوں میں جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ کشیدگی کے دوران یہ لڑائی شہروں میں در آئی ہے جس کے باعث عام شہری بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ترکی کی کرد نواز سیاسی جماعت 'ایچ ڈی پی' کے ایک حالیہ بیان کے مطابق گزشتہ ماہ نافذ کیے جانے والے کرفیو کے بعد سے دیار باکیر، سیلوپی اور سیزر میں اب تک 81 عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
مسلسل کرفیو اور ترک سکیورٹی فورسز کی جارحانہ کارروائیوں کے باعث علاقے کے ہزاروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں کی جانب چلے گئے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ 2015ء میں ترکی کے اندر اور متصل سرحدی علاقوں میں ترک سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں میں 'پی کے کے' کے 3100 جنگجو مارے جاچکے ہیں۔
کئی عالمی ادارے بھی ترک سکیورٹی اداروں کی ان کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور ترک فورسز اور حکومت پر ملک کی کرد اقلیت کے حقوق کی پامالی کا الزام عائد کرتے ہیں۔