انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں اور مائیکر بلاگنگ کی ویب سائیٹ "ٹوئٹر" نے گزشتہ ماہ پاکستان میں درجنوں اکاؤنٹس تک رسائی پر لگائی گئی پابندی ختم کر دی ہے۔
ان اکاؤنٹس اور ٹوئٹس تک رسائی روکنے کے لیے ادارے کے بقول پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے یہ کہہ کر درخواست کی گئی تھی ان پر مبینہ طور پر "غیر اخلاقی" اور "توہین مذہب" مواد موجود ہے۔
ٹوئٹر کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق 18 مئی کو ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی اے کی طرف سے موصولہ درخواستوں پر عمل کرتے ہوئے ان اکاؤنٹس تک پاکستان میں رسائی بند کر دی جائے۔
لیکن ٹوئٹر کے بقول پاکستانی ادارے کی طرف سے اس پابندی کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی مواد فراہم کرنے کے بعد رسائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ٹوئٹر نے یہ پابندی 2012ء میں متعارف کروائے گئے ضابطہ اخلاق کے تحت لگائی تھی جس میں کسی بھی ملک کے لیے مخصوص سنسر شپ پالیسی کے تحت متنازع مواد کو بند کیا جا سکتا ہے۔
ٹوئٹر اکاؤنٹس اور ٹوئٹس تک رسائی پر پابندی کی درخواست کے بعد پی ٹی اے کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اگر کسی بھی ویب سائیٹ پر پاکستانی قوانین کے مطابق قابل اعتراض مواد موجود ہو تو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بین الاوزارتی کمیٹی اس کو بند کرنے کی سفارش کرتی ہے جسے پی ٹی اے متعلقہ لوگوں تک پہنچاتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ "فیس بک" نے سماجی مساوات کے لیے موسیقی کے ذریعے آواز بلند کرنے والے ایک گروپ "لال بینڈ" کے فیس بک پیج تک بھی پاکستان میں رسائی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن دو ہی روز بعد اسے بحال کر دیا گیا تھا۔
فیس بک کا کہنا تھا کہ یہ پابندی بھی پی ٹی اے کی طرف سے درخواست کے بعد عائد کی گئی لیکن پی ٹی اے کے عہدیداروں نے ایسی کسی بھی درخواست سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان میں حکومت نے وڈیو شیئرنگ کی مقبول ویب سائیٹ " یوٹیوب" تک رسائی ستمبر 2012ء میں اس پر ایک اسلام مخالف فلم کے مناظر جاری ہونے کے بعد سے پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ تاحال برقرار ہے۔
ان اکاؤنٹس اور ٹوئٹس تک رسائی روکنے کے لیے ادارے کے بقول پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے یہ کہہ کر درخواست کی گئی تھی ان پر مبینہ طور پر "غیر اخلاقی" اور "توہین مذہب" مواد موجود ہے۔
ٹوئٹر کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق 18 مئی کو ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی اے کی طرف سے موصولہ درخواستوں پر عمل کرتے ہوئے ان اکاؤنٹس تک پاکستان میں رسائی بند کر دی جائے۔
لیکن ٹوئٹر کے بقول پاکستانی ادارے کی طرف سے اس پابندی کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی مواد فراہم کرنے کے بعد رسائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ٹوئٹر نے یہ پابندی 2012ء میں متعارف کروائے گئے ضابطہ اخلاق کے تحت لگائی تھی جس میں کسی بھی ملک کے لیے مخصوص سنسر شپ پالیسی کے تحت متنازع مواد کو بند کیا جا سکتا ہے۔
ٹوئٹر اکاؤنٹس اور ٹوئٹس تک رسائی پر پابندی کی درخواست کے بعد پی ٹی اے کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اگر کسی بھی ویب سائیٹ پر پاکستانی قوانین کے مطابق قابل اعتراض مواد موجود ہو تو وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بین الاوزارتی کمیٹی اس کو بند کرنے کی سفارش کرتی ہے جسے پی ٹی اے متعلقہ لوگوں تک پہنچاتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ "فیس بک" نے سماجی مساوات کے لیے موسیقی کے ذریعے آواز بلند کرنے والے ایک گروپ "لال بینڈ" کے فیس بک پیج تک بھی پاکستان میں رسائی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن دو ہی روز بعد اسے بحال کر دیا گیا تھا۔
فیس بک کا کہنا تھا کہ یہ پابندی بھی پی ٹی اے کی طرف سے درخواست کے بعد عائد کی گئی لیکن پی ٹی اے کے عہدیداروں نے ایسی کسی بھی درخواست سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان میں حکومت نے وڈیو شیئرنگ کی مقبول ویب سائیٹ " یوٹیوب" تک رسائی ستمبر 2012ء میں اس پر ایک اسلام مخالف فلم کے مناظر جاری ہونے کے بعد سے پابندی عائد کر رکھی ہے جو کہ تاحال برقرار ہے۔