طالبان نے ان دو افغان صحافیوں کو رہا کر دیا ہے جنہیں گزشتہ روز کابل سے تحویل میں لیا گیا تھا۔ تاہم، دو ہفتے قبل لا پتہ ہونے والی خواتین کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔
آریانہ ٹی وی کے رپورٹروں وارث حسرت اور اسلم حجاب کو طالبان فورسز نے پیر کی سہہ پہر ایسے میں اٹھا لیا جب وہ دارلحکومت میں کھانا کھانے کے لیے باہر نکلے تھے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی مشن ( UNAMA) نے بدھ کو بتایا ہے دونوں صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ شہریوں کے اغوا یا ان کو حراست میں لیے جانے کے اقدامات فوری طور پر بند ہونے چاہیں اور لا پتہ ہونے والے شہریوں کےحق آزادی رائے کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی منگل کے روز اس بات پر زور دیا تھا کہ اغوا ہونے والے صحافیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ'' آریانہ نیوز کے دو صحافیوں کی طالبان کے ہاتھوں غیر قانونی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آزادی صحافت پر اس طرح کے حملے آزادی اظہار کے لیے شدید خطرہ ہیں‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان پر زور دیں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں اور یہ کہ ان کو اس ضمن میں جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
دو سرگرم خواتین دو ہفتے قبل اس وقت لا پتہ ہو گئی تھیں جب انہوں نے کابل کے اندر ایک احتجاجی ریلی میں شرکت کی تھی۔ اس احتجاج میں خواتین کے حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا اور خواتین کے حجاب پہننے سے متعلق طالبان کے احکامات کی مذمت کی گئی تھی۔اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے بتایا ہے کہ ان خواتین کو کہاں رکھا گیا ہے اس بارے میں تاحال کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔
اسلامی عسکریت پسند گروپ نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں پر حملے کیے ہیں، حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو طاقت استعمال کر کے منتشر کیا ہے اور ایسے متعدد صحافیوں کو ایذا پہنچائی ہے جنہوں نے حکومت کی اجازت کے بغیر ہونے والے ان مظاہروں کی کوریج کی ہے۔
طالبان نے گزشتہ ہفتے افغان میڈیا ایڈووکیسی گروپ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا تھا جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
بین الاقوامی برادری نے ابھی تک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور شرط عائد کی ہے کہ طالبان حکومت اس وقت تک تسلیم نہیں کی جائے گی جب تک وہ انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتے اور ایک ایسی حکومت قائم نہیں کرتے جو افغانستان کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتی ہو۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں اور تازہ ترین اقدام کے طور پر بدھ کے روز افغانستان میں بعض سرکاری یونیورسٹیان کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے جہاں طلباء اور طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔ تاہم ہائی سکول کی حد تک لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔