یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے یورپ میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے نا صرف ترسیل کا عمل متاثر ہو سکتا ہے بلکہ براعظم کی اقتصادی بحالی پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس بار وہ ایسی کسی بھی صور ت حال سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
یورپ اپنی گیس کی ضرورت کا چوتھائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے اور یوکرین ان دونوں کے درمیان واقع ہے اور اسی بنا پر علاقائی تنازع اس ترسیل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
برطانوی ادارہ آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ فار انرجی اسٹڈیز کے سینئیر محقق سائمن پیرانی کہتے ہیں کہ ’’طویل المدت اور درمیانی مدت کے لیے گیس کی فراہمی سے متعلق تشویش کی وجہ سے گزشتہ چند روز سے گیس کی قیمت بڑھ گئی ہے۔‘‘
یوکرین خود بھی بڑی حد تک روس سے درآمد کردہ گیس پر انحصار کرتا ہے۔ روسی کمپنی گیسپروم کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ کے آغاز پر وہ برآمد کی جانے والی گیس کی قیمت بڑھا دے گی۔
یوکرین کی سرکاری گیس کمپنی نے گیسپروم کو 2 ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔
یورپی کمیشن کے ادارہ برائے توانائی کے سربراہ گنٹر اوٹنجر نے فوری طور پر یورپ میں توانائی کی کمی سے متعلق خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین یوکرین کی گیس کے بل کی ادائیگی کرے گا۔
’’اس وقت رکن ممالک میں گیس کی صورتحال اچھی ہے۔ ہمارے ہاں سردی بھی کچھ کم پڑی ہے۔ ہمارے یہاں گیس کا ذخیرہ گزشتہ سال کی نسبت بہتر انداز میں کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ہر جگہ ذخائر موجود ہیں۔‘‘
2006ء اور 2009ء میں روس نے قیمتوں پر اختلاف کے باعث یوکرین کے لیے گیس کی ترسیل روک دی تھی جس کی وجہ سے یورپ کو بھی گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
روس سے گیس فراہمی کے لیے یورپ کا یوکرین پر انحصار اب کم ہو گیا ہے۔ جنوب میں ایک پائپ لائن سے گیس براہ راست جرمنی کو فراہم کی جاتی ہے، یہ لائن بحیرہ بالٹک سے ہو کر گزرتی ہے۔
تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس بار وہ ایسی کسی بھی صور ت حال سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں۔
یورپ اپنی گیس کی ضرورت کا چوتھائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے اور یوکرین ان دونوں کے درمیان واقع ہے اور اسی بنا پر علاقائی تنازع اس ترسیل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
برطانوی ادارہ آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ فار انرجی اسٹڈیز کے سینئیر محقق سائمن پیرانی کہتے ہیں کہ ’’طویل المدت اور درمیانی مدت کے لیے گیس کی فراہمی سے متعلق تشویش کی وجہ سے گزشتہ چند روز سے گیس کی قیمت بڑھ گئی ہے۔‘‘
یوکرین خود بھی بڑی حد تک روس سے درآمد کردہ گیس پر انحصار کرتا ہے۔ روسی کمپنی گیسپروم کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ کے آغاز پر وہ برآمد کی جانے والی گیس کی قیمت بڑھا دے گی۔
یوکرین کی سرکاری گیس کمپنی نے گیسپروم کو 2 ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔
یورپی کمیشن کے ادارہ برائے توانائی کے سربراہ گنٹر اوٹنجر نے فوری طور پر یورپ میں توانائی کی کمی سے متعلق خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین یوکرین کی گیس کے بل کی ادائیگی کرے گا۔
’’اس وقت رکن ممالک میں گیس کی صورتحال اچھی ہے۔ ہمارے ہاں سردی بھی کچھ کم پڑی ہے۔ ہمارے یہاں گیس کا ذخیرہ گزشتہ سال کی نسبت بہتر انداز میں کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ہر جگہ ذخائر موجود ہیں۔‘‘
2006ء اور 2009ء میں روس نے قیمتوں پر اختلاف کے باعث یوکرین کے لیے گیس کی ترسیل روک دی تھی جس کی وجہ سے یورپ کو بھی گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
روس سے گیس فراہمی کے لیے یورپ کا یوکرین پر انحصار اب کم ہو گیا ہے۔ جنوب میں ایک پائپ لائن سے گیس براہ راست جرمنی کو فراہم کی جاتی ہے، یہ لائن بحیرہ بالٹک سے ہو کر گزرتی ہے۔