اتوار کے دِن وائٹ ہاؤس نے اِن رپورٹوں پر اپنی ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا، جن میں کہا گیا ہے کہ ہمسایہ روس کی طرف سے مشرقی یوکرین میں فوجی کمک بھیجے جانے کا سلسلہ جاری ہے، جس میں سرحد پار سے بھاری اسلحہ اور ٹینکوں کی منتقلی شامل ہے۔
قومی سلامتی کونسل کی خاتون ترجمان، برنادیت میہان نے روس نواز باغیوں کو یہ انتباہ بھی جاری کیا کہ یوکرین کے کشیدگی کے شکار مشرق کے کسی مزید علاقے پر تسلط جمانے کی کوشش نہ کی جائے۔
بقول ترجمان، ایسے اقدام کو یوکرین کی حکومت کے ساتھ کیے گئے جنگ بندی کے سمجھوتے کی ’سریح خلاف ورزی‘ تصور کیا جائے گا۔
یہ تازہ ترین امریکی انتباہ ایسے میں جاری کیا گیا ہے جب یورپی مبصرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مشرقی علاقے میں بھاری ہتھیاروں اور اسلحے کی کھیپ کے قافلوں کی آمد کے علاوہ، باغیوں کے زیر تسلط ڈونیسک شہر میں بھاری دہانے سے فائرنگ جاری ہے۔
میہان نے دونوں فریق پر زور دیا کہ ستمبر میں ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری کی جائے، خاص طور پر روس کے اس عہد کی کہ سرحد پار سے فوجیوں کی آمد اور ہتھیاروں اور اسلحے کی رسد کی ترسیل روکی جائے گی۔
نیٹو ذرائع نے خبر دی ہے کہ یوکرین کے مشرق میں داخل ہونے والے ٹینک بظاہر غیر مسلح ہیں، اور یہ کہ اُن پر کسی طرح کی شناخت کے نشانات موجود نہیں ہیں۔
تاہم، خاتون ترجمان نے کہا ہے کہ اِس کمک کے بعد، باغی دھڑوں کے پاس کافی مقدار میں اسلحہ میسر آجائے گا۔
اس سے قبل، اتوار ہی کے دِن ڈونیسک سے رائٹرز نے اپنی ایک خبر میں بتایا ہے کہ ہونے والی گولہ باری اکتوبر کے اوائل سے اب تک کی فائرنگ کے مقابلے میں شدید ترین ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گولیاں اُس علاقے میں چل رہی ہیں جہاں شدید لڑائی ہوتی رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ شہر کا ہوائی اڈا ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، جہاں سے دھنویں کے کالے بادل اُٹھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
کئیف کی حکومت نے جمعے کے روز الزام لگایا کہ روس، ماسکو نواز باغیوٕں کو کمک پہنچانے کے لیے، مزید 30 سے زائد ٹینک اور کئی ٹرک، جن میں فوجی سوار ہیں، روانہ کر چکا ہے۔
روس نے اِن رپورٹوں کو بار بار مسترد کیا ہے کہ وہ یوکرین میں فوجی مداخلت کر رہا ہے، اور باغیوں کے ہمراہ لڑنے والے روسی فوجیوں کے لیے اُس کا کہنا ہے کہ یہ رضاکار ہیں۔