روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ایک جوہری اورغیرجوہری ملک کے درمیان پنجہ آزمائی ہے اور اس کا ایک یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کےعدم پھیلاؤ کی کوششوں کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کا نتیجہ اس بات پراثر انداز ہو گا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے حریف ممالک دوسرے ممالک کے دفاع کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں۔ ایک اورعنصر یہ ہے کہ امریکہ کتنی خوش اسلوبی سے غیر جوہری اتحادیوں کو قائل کرتا ہے کہ امریکی قیادت میں انہیں ملنے والا تحفظ ان کے لیے کافی ہے۔
ایشیا کے کچھ سابق رہنماؤں نے یوکرین تنازع کو ثبوت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہاں کے عوام اپنے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ فی الحال موجودہ علاقائی رہنماؤں نے فوری طور پر اس خیال کی مذمت کی ہے۔
ایشیا میں خاص طور سے چار ممالک اپنی موجودہ یا ممکنہ ایٹمی قوت کے تناظر میں کسی حد اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ ان میں شمالی کوریا، چین، روس اورایران شامل ہیں۔ تین ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں اورچوتھا حصول کے قریب تر ہے۔ بظاہر اس علاقے کے دوسرے ملکوں میں اندیشے اور وسوسے تو پیدا ہو رہے ہیں۔ انہیں عشروں سے نیٹو کی طرف سے تحفظ کی ضمانت حاصل رہی ہے۔ مگریوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے اس تحفظ کے بارے بتدریج شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزورممالک یوکرین سے سبق حاصل کرنے پرغورکریں گے - خاص طور پر اس صورت میں جب روس نے یوکرین کے بڑے حصّے پر قبضہ جما لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی یورپ، خلیج فارس اورایشیاء کے دیگرشراکت داروں کوکس حد تک قائل کرپا ئیں گے کہ وہ امریکہ کے زیرقیادت جوہری اورروایتی ہتھیاروں کی ڈھال پراعتماد کریں اورخود کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ سے دور رکھیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ کی محقق ماریانا بڈجیرین کہتی ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس حریف پڑوسیوں کے بارے میں علاقے کے رہنما اپنے عوام سے کہہ سکتے ہیں کہ، 'براہ کرم جوہری ہتھیاروں کے حصول کی حمایت کریں، کیونکہ دیکھیے یوکرین کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
1980 کی دہائی کے سوویت دور کے یوکرین میں ایک اسکول کی طالبہ کے طور پر، بڈجیرن نے تابکاری کے اثرات اور جوہری جنگ کے دیگر ممکنہ زخموں سے نمٹنے کی تربیت حاصل کی۔ اس وقت اس ملک میں سوویت یونین کے تقریباً پانچ ہزار جوہری ہتھیار موجود تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ترک کر دی ۔ اس نے اقتصادی مدد اور مغرب کے ساتھ انضمام اورسلامتی کی یقین دہانیوں کا انتخاب کیا۔
بڈجیرن کا کہنا ہے "بالآخر، میرے خیال میں اس جنگ سے ہمارے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی قدرو قیمت کیا ہے۔"
دنیا بھر میں، امریکی فوج سٹریٹجک شراکت داروں کو یقین دہانی کرا رہی ہے جو جوہری حمایت یافتہ حریفوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
امریکی نیول وار کالج میں قومی سلامتی کے پروفیسر ٹیرنس روہرگ نے اپریل میں ہونے والےایک دفاعی فورم میں کہا کہ "ان لوگوں کے لیے جو امید کر رہے ہیں کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردارہوجائے گا، یوکرین پر روس کے حملے کی مثال "اس تابوت میں ایک اورکیل ثابت ہوئی ہے" ۔
روہرگ نے کہا، "یوکرین عراق اور لیبیا جیسی ریاستوں کے انجام کے بعد شمالی کوریا کے لیے ایک اورمثال بننے جا رہا ہے، جس نے اپنی جوہری صلاحیت کو ترک کر دیا ، اور دیکھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔"
’’ یوکرین کے پاس کبھی بھی دھماکے کے لیے تیارجوہری بم نہیں تھے، کم از کم وہ خود فائرنہیں کر سکتا تھا‘‘۔
اوسلو یونیورسٹی میں جوہری اور سلامتی کی حکمت عملی کے پروفیسربراٹ ہیگیمرنے کہا کہ یوکرین پر روس کا حملہ اب "اس بات کو اجاگرکرتا ہےکہ کم ازکم، اگر آپ کے پاس جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ہے، اورچاہے آپ اس سے بہت دور ہیں، تب بھی اسے ترک کرنا خام خیالی شمار ہو سکتی ہے۔"
تاریخی طور پر سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں نے یہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے کہ کون سے ممالک قانونی طور پراس کلب میں شامل ہوسکتے ہیں۔ وہ ممالک جو ایران اور شمالی کوریا سمیت آگے بڑھتے ہیں، وہ الگ تھلگ کر دیے گئے اوران پر پابندیاں عائد ہیں۔
نیوکلیئرماہرین جنوبی کوریا اور سعودی عرب کا تذکرہ ان ممالک میں کرتے ہیں جو کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں غورکرسکتے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2018 میں وعدہ کیا تھا کہ اگر ایران نے ایسا کیا تو وہ فوری طور پر جوہری بم حاصل کر لیں گے۔
نیٹو کے نیوکلیئر ڈائریکٹوریٹ کی سربراہ جیسیکا کاکس نے اپریل کے فورم میں کہا تھا کہ یہ حیران کن ہے کہ زیادہ ممالک نے جوہری ہتھیار حاصل نہیں کیے ہیں۔
"اگرآپ اسے تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ دنیا میں 10 سے کم ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوں گے"۔۔ لیکن اب ستّر سال بعد دنیا کیا سوچ رہی ہے ، یہ لمحہ فکریہ ہے"۔
یوکرین میں ایک نوجوان خاتون کے طور پر، بڈجیرن کو 1990 کی دہائی کے معاہدے کے بعدسے یہ احساس تھا کہ ان کی اپنی ملازمت کے لیے فنڈز کلنٹن انتظامیہ کی طرف سے دی گئی مالی اعانت کا حصہ تھے، جوایٹمی معاہدے کے لیے یوکرین کو مغرب کی طرف سے انعام کے طور پر فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا، "اگر یوکرین غالب آجاتا ہے، تو وہ کہہ سکے گا کہ جوہری ہتھیار بیکار ہیں۔"
"لیکن اگر یوکرین مغلوب ہوگا تو کہانی بہت مختلف ہو جائے گی۔"
(اس مضمون کا مواد اے پی سے لیا گیا)