رسائی کے لنکس

محصور علاقے سے یوکرین کے فوجیوں کا انخلا ہو رہا ہے: پوروشنکو


محصور شہر سے یوکرین کے فوجیوں کا انخلا
محصور شہر سے یوکرین کے فوجیوں کا انخلا

امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے کہا کہ "اگر روس منسک معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے بشمول 12 فروری کو ہونے والے تازہ معاہدے کے، تو اس کا خمیازہ اور بڑھ جائے گا۔"

یوکرین کے صدر نے کہا ہے کہ ان کی فورسز مشرقی خطے میں واقع محصور قصبے ڈیبالٹسیو سے نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔

اس علاقے کو روس نواز باغیوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا اور جنگ بندی معاہدے کے باوجود یہاں سے شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔

بدھ کو ایک وڈیو پیغام میں صدر پیٹرو پوروشنکو کا کہنا تھا کہ "یوکرین کی مسلح افواج نے نیشل گارڈز کے ساتھ مل کر ڈیبالٹسیو سے منظم انداز میں نکلنے کا منصوبہ مکمل کر لیا ہے۔"

ان کے بقول یوکرین کی فوج کے 80 فیصد یونٹس شہر سے نکل گئے ہیں اور توقع ہے کہ بقیہ بھی جلد ہی یہاں سے نکل جائیں گے۔

قبل ازیں بدھ ہی کو علاقے کے نائب پولیس سربراہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یوکرینی فوجیوں کے انخلا کے باوجود یہاں "گلیوں میں بھرپور لڑائی" جاری ہے۔

منگل کو روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے روس نواز باغیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یوکرین کی فورسز کو محصور علاقے ڈبالٹسیو سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ دیں۔

بڈاپسٹ میں ہنگری کے وزیر اعظم کے ہمراہ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کیئف کی حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کی اجازت دے۔

صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ یوکرین کے فوجی اس علاقے میں 12 فروری کو ہونے والے معاہدے سے ایک ہفتے قبل ہی سے محصور ہیں اور انھوں نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ یہ محاصرہ کچھ وقت تک کسی نہ کسی صورت جاری رہ سکتا ہے۔

لیکن ان کے بقول مشرقی یوکرین کے باقی علاقوں میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد سے لڑائی نہیں ہو رہی۔

باغیوں کے ایک مرکزی گروپ کے رہنما کا بھی اصرار ہے کہ یہ محاصرہ جنگ بندی معاہدے سے پہلے ہی سے جاری ہے جس کی وجہ سے ان کے بقول یہ علاقہ ان اگلے مورچوں میں شامل نہیں ہوتا جہاں جنگ بند کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا اور اس طرح یہ باغیوں کے زیر تسلط علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے تشدد کا الزام "روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں" پر عائد کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق انھوں نے یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو سے اس بارے میں ٹیلی فون پر تبادلہ خیال بھی کیا۔

"اگر روس منسک معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے بشمول 12 فروری کو ہونے والے تازہ معاہدے کے، تو اس کا خمیازہ اور بڑھ جائے گا۔"

تازہ معاہدے کے مطابق فریقین ان سرحدی علاقوں سے منگل تک بھاری ہتھیار واپس لے جانا تھے۔ لیکن معینہ مدت گزر جانے کے بعد بھی دونوں اس بات پر مُصر ہیں کہ انخلا میں وہ پہل نہیں کریں گے۔

XS
SM
MD
LG