واشنگٹن —
یوکرین میں، جہاں ایک طرف مشرقی حصے میں روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرین کی فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے، وہیں دوسری طرف، رواں ماہ کے آخر میں انتخابات کے حوالے سے ایک عام آدمی کے خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکرین کے عوام موجودہ حالات میں انتخابات کے انعقاد کو ایک مشکل امر قرار دیتے ہیں۔
یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں ’آزادی چوک‘ جسے میدان کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں ان مظاہروں کا مرکز بنا رہا ہے، جہاں پر مظاہرین نے حکومت کی برطرفی کے لیے دھرنا دے رکھا تھا۔
ابھی بھی یہاں پر چند افراد نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے جو لوگوں سے چندہ لے کر گزارہ کر رہے ہیں مگر آزادی چوک میں خیمے گاڑے بیٹھے ہیں۔
یوکرین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کی حکومت ملک کے مشرقی حصے میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ لڑ رہی ہے، ملک میں انتخابات کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب، ایسے یوکرینی باشندے بھی ہیں جو ملک میں انتخابات کے انعقاد کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ انتخابات ملک میں موجود بحران کو ٹالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک یوکرینی باشندے نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ، ’یہ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ واضح ہے۔ یقیناً اگر ہمارے ملک کا انتظام مخلص قیادت کے ہاتھ میں ہوگا، تو ملک کے موجودہ حالات بدلیں گے‘۔
مگر چند یوکرینی باشندوں کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ یوکرین کے مشرقی حصے میں جاری لڑائی کے باعث وہاں پر انتخابات کا انعقاد بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک خاتون نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ، ’مشرقی یوکرین کی صورتحال بدلے بغیر ان انتخابات کا انعقاد یقیناً بہت مشکل ہے۔ میرے خیال میں، رُوس ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا کہ جس سے یوکرین میں انتخابات کا انعقاد معطل ہو جائے اور ایمرجنسی کی فضاء قائم ہو‘۔
مغرب نواز سرگرم کارکن آئیون کرودزک کہتے ہیں کہ الیکشنز کے باعث یوکرین کے مشرقی حصے میں رہنے والے یوکرینی باشندوں کو تحریک ملے گی کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور اپنا ووٹ ڈال کر جمہوری عمل کا حصہ بنیں۔
آئیون کرودزک کے الفاظ، ’میرے خیال میں دونکس کے لوگ اگر ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اپنی زندگیاں بدلنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں انتخابات میں حصہ لینا چاہیئے‘۔
یوکرین کے دارالحکومت کیئف میں ’آزادی چوک‘ جسے میدان کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے میں ان مظاہروں کا مرکز بنا رہا ہے، جہاں پر مظاہرین نے حکومت کی برطرفی کے لیے دھرنا دے رکھا تھا۔
ابھی بھی یہاں پر چند افراد نے ڈیرا ڈالا ہوا ہے جو لوگوں سے چندہ لے کر گزارہ کر رہے ہیں مگر آزادی چوک میں خیمے گاڑے بیٹھے ہیں۔
یوکرین کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کی حکومت ملک کے مشرقی حصے میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ لڑ رہی ہے، ملک میں انتخابات کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب، ایسے یوکرینی باشندے بھی ہیں جو ملک میں انتخابات کے انعقاد کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ انتخابات ملک میں موجود بحران کو ٹالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایک یوکرینی باشندے نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ، ’یہ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ واضح ہے۔ یقیناً اگر ہمارے ملک کا انتظام مخلص قیادت کے ہاتھ میں ہوگا، تو ملک کے موجودہ حالات بدلیں گے‘۔
مگر چند یوکرینی باشندوں کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ یوکرین کے مشرقی حصے میں جاری لڑائی کے باعث وہاں پر انتخابات کا انعقاد بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک خاتون نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ، ’مشرقی یوکرین کی صورتحال بدلے بغیر ان انتخابات کا انعقاد یقیناً بہت مشکل ہے۔ میرے خیال میں، رُوس ہر ممکنہ اقدام اٹھائے گا کہ جس سے یوکرین میں انتخابات کا انعقاد معطل ہو جائے اور ایمرجنسی کی فضاء قائم ہو‘۔
مغرب نواز سرگرم کارکن آئیون کرودزک کہتے ہیں کہ الیکشنز کے باعث یوکرین کے مشرقی حصے میں رہنے والے یوکرینی باشندوں کو تحریک ملے گی کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں اور اپنا ووٹ ڈال کر جمہوری عمل کا حصہ بنیں۔
آئیون کرودزک کے الفاظ، ’میرے خیال میں دونکس کے لوگ اگر ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اپنی زندگیاں بدلنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں انتخابات میں حصہ لینا چاہیئے‘۔