واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ نے شام میں گزشتہ ڈھائی سال سے جاری خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے لاکھوں عام شہریوں تک امداد اور بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری سے ساڑھے چھ ارب ڈالر مانگ لیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے کی سربراہ ویلری آموس کا کہنا ہے کہ دو ارب 30 کروڑ ڈالرز شام کے اندر بے گھر ہونے والے افراد پر خرچ کیے جائیں گے جب کہ باقی رقم سے ترکی، لبنان اور خطے کے دیگر ملکوں میں پناہ گزین شامیوں کی مدد کی جائے گی۔
پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویلری آموس نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کسی بھی بحران کے لیے طلب کی جانے والی اب تک کی یہ سب سے بڑی رقم ہے جس سے شام کی خانہ جنگی کی وسعت اور شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار نے کہا کہ شام میں بے گھر ہونے والے افراد اور پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں اضافے سے ہر شعبے میں امداد کی طلب بڑھ رہی ہے جس کے خطے پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ عالمی ادارے نے شام کے اندر موجود بے گھر افراد کے لیے امداد کی پہلی کھیپ اتوار کو ہوائی جہازوں کے ذریعے عراق سے شام روانہ کی تھی۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ عراق کے راستے آئندہ 12 روز کے دوران میں مزید خوراک، کمبل اور سرد موسم سے نبٹنے کے لیے ضروری سامان اور گرم کپڑے شام بھیجے گا۔ اس امدادی سامان کا بیشتر حصہ شام کے کرد اکثریتی علاقے میں بے گھر افراد کو فراہم کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ شام اور عراق کی حکومتوں نے اقوامِ متحدہ کو اپنے ہوائی اڈوں کے ذریعے اس امداد کی ترسیل کی اجازت دی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اسے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ 93 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آئندہ سال سوا دو ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہوگی۔ گزشتہ سال عالمی ادارے نے ان افراد کے لیے عالمی برادری سے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر مانگے تھے جس میں سے اسے صرف 62 فی صد رقم ملی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کی تقریباً 40 فی صد آبادی کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے کی سربراہ ویلری آموس کا کہنا ہے کہ دو ارب 30 کروڑ ڈالرز شام کے اندر بے گھر ہونے والے افراد پر خرچ کیے جائیں گے جب کہ باقی رقم سے ترکی، لبنان اور خطے کے دیگر ملکوں میں پناہ گزین شامیوں کی مدد کی جائے گی۔
پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویلری آموس نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کسی بھی بحران کے لیے طلب کی جانے والی اب تک کی یہ سب سے بڑی رقم ہے جس سے شام کی خانہ جنگی کی وسعت اور شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار نے کہا کہ شام میں بے گھر ہونے والے افراد اور پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں اضافے سے ہر شعبے میں امداد کی طلب بڑھ رہی ہے جس کے خطے پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ عالمی ادارے نے شام کے اندر موجود بے گھر افراد کے لیے امداد کی پہلی کھیپ اتوار کو ہوائی جہازوں کے ذریعے عراق سے شام روانہ کی تھی۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ عراق کے راستے آئندہ 12 روز کے دوران میں مزید خوراک، کمبل اور سرد موسم سے نبٹنے کے لیے ضروری سامان اور گرم کپڑے شام بھیجے گا۔ اس امدادی سامان کا بیشتر حصہ شام کے کرد اکثریتی علاقے میں بے گھر افراد کو فراہم کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ شام اور عراق کی حکومتوں نے اقوامِ متحدہ کو اپنے ہوائی اڈوں کے ذریعے اس امداد کی ترسیل کی اجازت دی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اسے شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ 93 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آئندہ سال سوا دو ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہوگی۔ گزشتہ سال عالمی ادارے نے ان افراد کے لیے عالمی برادری سے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر مانگے تھے جس میں سے اسے صرف 62 فی صد رقم ملی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث ملک کی تقریباً 40 فی صد آبادی کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا ہے۔