اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شام کے محصور شہر حمص میں ایک پادری کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کو "تشدد کا غیر انسانی فعل" قرار دیا۔
ہالیںڈ سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ پادری فرانس وان ڈی لاگ کئی دہائیوں سے شام میں مقیم تھے اور گزشتہ ایک سال سے حمص میں جاری شدید لڑائی کے باوجود انھوں نے وطن واپس جانے سے انکار کردیا تھا۔
مسٹر بان نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے مشکل وقت میں "شام کے لوگوں کے ساتھ ہیرو کی طرح کھڑے رہے"۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پادری کا قتل شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کے تقاضے کو ظاہر کرتا ہے اور مسٹر بان نے شام میں تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہر نسل اور مذہب کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مسلح افراد پیر کو پادری کے خانقاہ میں داخل ہوئے اور انھیں ملحقہ باغیچے میں لے جا کر گولی مار دی۔
وان ڈی لاگ حمص کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے اور امدادی اشیا کی شہر میں رسائی کے لیے محاصرہ ختم کروانے کی ان کی کوششوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ویٹیکن کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وان ڈی لاگ نے انتہائی خطرناک صورتحال کے باوجود شام کے عوام کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے بے پناہ ہمت کا مظاہرہ کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ وان ڈی لاگ کی موت کی خبر پر ’’افسردہ‘‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پادری نے حمص میں لوگوں کی تکالیف کو کم کرنے کے خدمات انجام دیں۔
شام میں باغیوں سے منسلک بعض اسلامی انتہا پسندوں نے ماضی میں بھی عیسائیوں کے خلاف کارروائیاں کیں جس کی وجہ سے خانہ جنگی سے قبل تقریباً ساڑھے چار لاکھ عیسائی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
شام میں ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ عیسائی آباد ہیں۔
ہالیںڈ سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ پادری فرانس وان ڈی لاگ کئی دہائیوں سے شام میں مقیم تھے اور گزشتہ ایک سال سے حمص میں جاری شدید لڑائی کے باوجود انھوں نے وطن واپس جانے سے انکار کردیا تھا۔
مسٹر بان نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے مشکل وقت میں "شام کے لوگوں کے ساتھ ہیرو کی طرح کھڑے رہے"۔
اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پادری کا قتل شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کے تقاضے کو ظاہر کرتا ہے اور مسٹر بان نے شام میں تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہر نسل اور مذہب کے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مسلح افراد پیر کو پادری کے خانقاہ میں داخل ہوئے اور انھیں ملحقہ باغیچے میں لے جا کر گولی مار دی۔
وان ڈی لاگ حمص کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے اور امدادی اشیا کی شہر میں رسائی کے لیے محاصرہ ختم کروانے کی ان کی کوششوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ویٹیکن کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وان ڈی لاگ نے انتہائی خطرناک صورتحال کے باوجود شام کے عوام کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے بے پناہ ہمت کا مظاہرہ کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ وان ڈی لاگ کی موت کی خبر پر ’’افسردہ‘‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پادری نے حمص میں لوگوں کی تکالیف کو کم کرنے کے خدمات انجام دیں۔
شام میں باغیوں سے منسلک بعض اسلامی انتہا پسندوں نے ماضی میں بھی عیسائیوں کے خلاف کارروائیاں کیں جس کی وجہ سے خانہ جنگی سے قبل تقریباً ساڑھے چار لاکھ عیسائی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
شام میں ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ عیسائی آباد ہیں۔