لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے شورش کے شکار اس ملک میں ایک نئی اتحادی حکومت بنانے کی تجویز کا اعلان کیا ہے جو کہ چار سال سے جاری بدامنی اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
سفیر برنارڈینو لیون نے جمعہ کو مراکش میں اس تجویز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ " ہمارا ماننا ہے کہ (یہ حکومت) کامیاب ہو سکتی ہے، لیبیا کے عوام کو ملک بچانے کے لیے اس تاریخی موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔"
اس مجوزہ منصوبے کے تحت طرابلس میں قائم پارلیمنٹ کے رکن فیص سراج کو وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے تین نائبین ہوں گے اور چھ ارکان پر مشتمل ایک صدارتی کونسل قائم کی جائے گی۔
لیکن اس مجوزہ اتحادی حکومت کے قیام میں اب بھی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔ طرابلس اور مشرقی لیبیا میں قائم حریف پارلیمان سے اس کی منظور ضروری ہے جب کہ طرفین کے ملیشیا گروپوں کو بھی اس پر اتفاق کرنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے لیبیا کی تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاہدے کی توثیق کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ "کسی ماہ کے مسائل اور غیر یقینی صورتحال کے بعد (سیکرٹری جنرل) لیبیا کے رہنماؤں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔"
لیبیا میں انتشار کے بعد دو مختلف حکومتیں قائم ہیں جن میں ایک طرابلس میں ہے جب کہ بین الاقوامی حمایت یافتہ ایک حکومت مشرقی علاقے سے کام کر رہی ہے۔
2011ء میں یہاں شروع ہونے والی عوامی تحریک اور پھر اس کے نتیجے میں دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک بدامنی اور شورش کا شکار چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی تیل کی صنعت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں لیبیا پر زور دیتی ہیں کہ اس سے قبل کہ داعش اور دیگر شدت پسند گروپ اس صورتحال کا فائدہ اٹھائیں وہ اتحادی حکومت کی تجویز پر اتفاق کر لے۔