اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ کے عام شہریوں تک فوری امداد کی فراہمی کے لیے پیر کو ’فوری اور غیر مشروط جنگ بندی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
سلامتی کونسل نے اتوار کو نصف شب کے بعد ہنگامی اجلاس میں صدارتی بیان کی منظوری دی، جب کہ کئی مسلمان ممالک کی طرح غزہ میں بھی رمضان کے مہینے کے ختم ہونے کے بعد عیدالفطر منائی جا رہی ہے۔
غزہ کے شہریوں اور کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتوار کو اسرائیل کی بمباری اور حماس کے راکٹ حملوں میں کمی آئی ہے، جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ پیر کو عیدالفطر سے پہلے ایک طرح کی جنگ بندی ہے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اس بیان سے طویل عرصے تک جنگ بندی کی راہ ہموار ہو گی لیکن انھوں نے سلامتی کونسل پر اس حوالے سے تنقید کی کہ اس نے، بقول ان کے، اسرائیلی حملوں کے خلاف سخت قرارداد کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔
منصور نے کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ سلامتی کونسل غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کی حفاظت اور ان کے جائز تحفظات کو حل کرنے کے بارے میں توجہ دے گی۔ موجودہ صورتحال کو طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ران پروسر نے کہا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر 2500 راکٹ داغے اور ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر اسرائیل کو راکٹ حملوں کا سامنا نہ ہوتا تو پھر اس کو فضائی کارروائی کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔
پروسر نے کہا کہ’’ہم نے لڑائی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن حماس نے (راکٹ) حملے روکنے سے انکار کر دیا۔ اسرائیل نے جنگ بندی کی پانچ تجاویز کو قبول کیا جبکہ حماس نے سب کو مسترد کر دیا یا ان کی خلاف وزری کی اور اس میں (حماس) کی طرف سے دی گئی تجویز بھی شامل تھیں‘‘۔
پروسر نے کہا کہ سلامتی کونسل کے بیان میں خاص طور پر حماس کی طرف سے راکٹ داغے جانے اور اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اُردن کی طرف سے تیار کیے گئے، سلامتی کونسل کے بیان میں’’تمام فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کو عید کے دوران اور اس کے بعد کے عرصے کے لیے قبول کریں ۔۔۔۔ تمام فریقوں سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مصری تجویز کے تحت مستقل اور پائیدار جنگ بندی کے لیے کوششیں جاری رکھیں‘‘۔
جنگ بندی کے بارے میں یہ مطالبات اسرائیل اور حماس کی طرف سے گزشتہ تین ہفتوں سے جاری لڑائی کو بند کرنے کے بارے میں پس و پیش کے بعد سامنے آ رہے ہیں۔
تین ہفتوں سے اسرائیل نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس کا مقصد اس کے بقول حماس کی طرف سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغنے کو روکنا ہے۔
ان کارروائیوں میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور ان میں خواتین اور بچے میں بھی شامل ہیں۔
لڑائی میں اسرائیل کے 42 فوجی مارے جا چکے ہیں۔