اقوام متحدہ کی ایک تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ گزشتہ سال غزہ کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے زیرانتظام پناہ گاہوں پر "اسرائیلی حملوں" میں کم ازکم 44 فلسطینی ہلاک اور 227 زخمی ہوگئے۔
سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی تنصیبات کا تحفظ "واجب" ہونا چاہیے۔
لیکن ایک آزادانہ بورڈ سے کروائی گئی تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام دو اسکولوں میں اسلحہ چھپایا گیا اور دو واقعات ایسے بھی ہوئے جن میں ان عمارتوں سے "غالباً" فلسطینی عسکریت پسندوں نے فائر کیے۔
بان کی مون نے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔
2014ء میں ہونے والی یہ لڑائی غزہ میں بسنے والے 18 لاکھ افراد کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی جس میں 2200 سے زائد فلسطینی مارے گئے اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اسرائیل میں ہونے والی 72 ہلاکتوں میں 66 فوجی شامل تھے۔
اس نئی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک موقع پر اسرائیلی فورسز کی طرف سے لڑکیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ایک اسکول پر 88 مارٹرگولے پھینکے گئے اور ایک اسکول پر ٹینک شکن گولے سے حملے کیا گیا جب کہ ایک کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایک اور اسکول پر 155 ملی میٹر کے طاقتور گولے پھینکنے سے پہلے "اسرائیلی حکومت نے اسکول یا اس کے گرد و نواح میں کوئی انتباہی اعلان نہیں کیا۔"
اسرائیلی ٹینک سے کی گئی گولہ باری سے اس اسکول کی عمارت کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔
انکوائری میں اقوام متحدہ کے اُن اسکولوں کی سکیورٹی کو بھی ناقص قرار دیا جہاں سے اسلحہ برآمد ہوا۔
اقوام متحدہ نے اس رپورٹ کا خلاصہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 207 صفحات پر مبنی رپورٹ ابھی "خفیہ" ہے۔