امداد اور انسانی ہمدری کی بنیاد پر اعانت کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ شام کے محصور شہر حلب میں امدادی سامان لانے اور لے جانے کے لیے راستے کو محفوظ بنایا جائے اور کسی بھی یہ شہر زبردستی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
اسٹیفن او برائن نے جمعرات کو یہ بات روس کی اس تجویز پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی جس میں شہریوں اور ہتھیار رکھ دینے والے باغیوں کو حلب سے نکلنے کے لیے چار مختلف راستے تجویز کیے تھے۔
یہ پورا شہر شام کی سرکاری فورسز کے حصار میں ہے اور یہاں خوراک اور دیگر ہنگامی امدادی سامان پہنچانا تقریباً ناممکن رہا ہے۔ یہاں کے تین لاکھ افراد کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔
او برائن یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ 48 گھنٹوں کی فائر بندی کے تسلسل کے دوران امدادی کارکنوں کو شہر میں جانے دیا جائے تاکہ وہ یہ درکار امداد کا جائزہ لے سکیں اور اسے بہم پہنچا سکیں۔
"تمام فریقین پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی پاسداری لازم ہے اور اس کی ضرورت ہے کہ محفوظ، غیرجانبدار اور فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شہریوں کو معاونت فراہم کرنے کے لیے انتظام کیا جائے۔"
روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے جمعرات کو "بڑے پیمانے پر انسانی ہمدری کی بنیاد پر آپریشن" کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد "ان شہریوں کی مدد کرنا ہے جو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہیں اور ایسے جنگجوؤں کے لیے بھی کہ جو اپنے ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں۔"
روس اور شام کی حکومت "دہشت گرد" کی اصطلاح باغیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
شام کے صدر بشارالاسد نے بھی ہتھیار ڈال کر خود کو حکام کے حوالے کرنے والوں کے لیے عام معافی کا پیشکش کی ہے اور یہ پیشکش آئندہ تین ماہ کے لیے ہے۔