شام کے مسئلے پر قائم اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ پاولو پین ہیرو نے کہا ہے کہ اس ملک میں جاری چار سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے سیاسی حل کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن، یہ ملک ایک تلخ اور جان لیوا تعطل کا شکار ہے۔
’گارجین‘ میں تحریر کردہ ایک مضمون میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئے تنازعے میں انسانی المیہ کا ذکر کیا ہے، جس کے نتیجے میں 40 لاکھ پناہ گزین جان بچا کر ملک سے نکل گئے ہیں، جبکہ 76 لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے ہیں اور اس جنگ کے نتجے میں اسکول اور اسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔
سنہ 2011 میں بشار الاسد حکومت کےخلاف شروع ہونے والا پرامن احتجاج باغیوں، حکومت اور داعش کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ تمام گروپ خطے پر قبضہ کے لئے جنگ کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک 220000 سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔
پین ہیروز کا کہنا تھا کہ خواہ سنی ہوں یا شعیہ، کرد ہوں یا فلسطنی، مسیحی ہوں یا دروز یا کوئی اور کمیونٹی۔ صنفی، نسلی یا مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شامی اس خونی جنگ کا شکار ہیں، جس کے خاتمے کے لئےاقوام متحدہ نے جنیوا میں بات چیت کے دو الگ الگ ادوار کا اہتمام کیا۔ لیکن، یہ دونوں اجلاس تشدد کے خاتمے کے لئے کسی طویل مدتی سیاسی حل کی تلاش میں ناکام رہے،
پین ہیرو کے مطابق، دنیا اس مسئلے پر صرف ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن امن کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔ انھوں نے زور دیا کہ مسئلے کو بین الا اقوامی کریمینل کورٹ میں بھیجا جائے اور جو حکومتیں وہاں کچھ اثر رسوخ رکھتی ہیں وہ لڑنے والے ان گروپوں کو بات چیت پر مجبور کریں۔
انھوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ شام کا یہ تنازعہ دنیا بھر میں پھیلنے والا ہے، کیونکہ شام سے فرار ہوکر یورپ پہنچنے والے لوگ اپنے ساتھ تنازعہ بھی لاتے ہیں۔ اس طرح یہ جنگ شام سے باہر بھی منتقل ہوسکتی ہے۔
پین ہیرو کا بیان اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ارادے کے پریس ریلیز کے طور پر سامنے آیا ہے جس میں شام کو نقل مکانی کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں پناہ لینے والوں کی تعداد ریکارڈ حد تک پہنچ چکی ہے۔