اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ عراق میں جنوری 2014ء سے اکتوبر 2015ء کے دوران پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں 19 ہزار عراقی شہری ہلاک ہوئے۔
عالمی ادارے کی جانب سے منگل کو جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 30 لاکھ عراقیوں کو بے گھر ہونا پڑا۔
عراق کے لیے اقوامِ متحدہ کے مشن اور عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں عراقی شہریوں کو پیش آنے والی ان مشکلات اور مصائب کا احاطہ کیا گیا ہے جو 22ماہ کے عرصے کے دوران انہیں جھیلنا پڑیں۔
رپورٹ عراق میں تشدد کا سامنا کرنے والوں اور پرتشدد واقعات کے عینی شاہدین کے بیانات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جس کے مطابق اس 22 ماہ کے عرصے کے دوران پرتشدد واقعات اور حملوں میں عراقی سکیورٹی فورسز کے بھی آٹھ ہزار اہلکار ہلاک ہوئے۔
عالمی ادارے نے کہا ہے کہ عراق میں اس عرصے کےد وران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بیان کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق میں عام شہریوں کو بدستور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس حوالے سے صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ شدت پسند تنظیم داعش بدستور عراق میں انسانی حقوق اور بنیادی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہے اور منظم طریقے سے بڑے پیمانے پر پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔
عالمی ادارے نے رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عراق میں شدت پسندوں نے 3500 خواتین کو جنسی غلام بنا رکھا ہے جن کی اکثریت کا تعلق یزیدی اقلیت سے ہے۔
رپورٹ کے مرتبین نے کہا ہے کہ انہیں اپنی تحقیق کے دوران عراقی حکومت کی حامی ملیشیاؤں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کی کئی شکایات بھی ملیں۔
عراق کے لیے اقوامِ متحدہ کے ایلچی جان کیوبس نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی پیش قدمی کے باوجود داعش کے جنگجو عراقی شہریوں کو قتل اور بے گھر کر رہے ہیں۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ شدت پسندوں سے چھینے جانے والے علاقوں کی تعمیرِ نو اور وہاں استحکام کے لیے عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کریں تاکہ بے گھر عراقی شہریوں کی اپنے گھروں کو واپسی ممکن بنائی جاسکے۔