اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوئتریس نے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ہونے والی مہلک جھڑپوں کی "آزادانہ اور شفاف" تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کو فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فورسز کے درمیان ہونے والی ان جھڑپوں میں کم ازکم 16 افراد ہلاک اور 1400 زخمی ہوگئے تھے جن میں ساڑھے سات سو ایسے بھی تھے جو گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔
جمعہ کو دیر گئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جانا تھا لیکن اس بارے میں کسی اقدام کا فیصلہ یا مشترکہ اعلامیہ سامنے نہیں آیا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن کا کہنا تھا کہ "امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود" یہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ ان کے بقول یہ درخواست کی گئی تھی کہ اجلاس عید فطیر کے بعد تک ملتوی کر دیا جائے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس کے اہلکاروں نے حالیہ برسوں میں سرحد پر اس قدر بڑی تعداد میں جمع ہو کر مظاہرہ کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے ضروری اقدام کیے تھے۔
فوج کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد سرحد کے قریب پہنچے اور ان میں سے اکثر پتھر پھینکنے کے علاوہ ٹائروں کو آگ لگا کر بھی فوجیوں کی طرف دھکیلتے رہے۔
2014ء میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کے بعد یہ غزہ میں سب سے مہلک ترین دن تھا۔
سیاسی امور کے لیے اقوام متحدہ کے نائب سربراہ نے ہنگامی اجلاس میں کہا کہ غزہ میں "آنے والے دنوں میں صورتحال بگڑ سکتی ہے"، اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ شہریوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
امریکی سفارتکار والٹر ملر نے کونسل کو بتایا کہ انھیں جانی نقصان پر بہت افسوس ہے۔ انھوں نے اس صورتحال میں ملوث لوگوں پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدام کریں۔
اقوام متحدہ میں کویت کے سفیر منصور العطیبی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا اقدام " بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔"
فلسطینیوں نے اسرائیل کی سرحد کے ساتھ غزہ میں پانچ مختلف مقامات پر احتجاجی کیمپ لگائے جہاں ان خواتین اور بچوں کے ساتھ ان کا چھ ہفتوں تک قیام کرنے کا ارادہ ہے۔
یہ احتجاج یوم نکبہ کی یاد میں کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی یہ دن 1948ء کی جنگ کے دوران لاکھوں فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے نقل مکانی یا بے دخل کی یاد میں مناتے ہیں۔ ان علاقوں اس وقت اسرائیلی ریاست قائم کی گئی تھی۔