شام میں اقوامِ متحدہ کے تقریباً 300 فوجی مبصر موجود ہیں اور ان کے قیام کی مدت 20 جولائی تک ہے، لیکن سرکاری اور باغی فورسز کے درمیان جنگ میں جو تیزی آ رہی ہے اس کے نتیجے میں ان کا مشن اس سے پہلے ختم ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 90 دن کا یہ مشن اپریل میں شروع کیا تھا۔ آنے والے ہفتوں میں اب اسے یہ طے کرنا ہے کہ اسے منسوخ کر دیا جائے یا اس میں توسیع کی جائے اور مزید فنڈز فراہم کیے جائیں۔
لیکن جن 47 ملکوں نے اس مشن کے لیے فوجی دیے ہیں، وہ سکیورٹی کونسل کے فیصلے سے پہلے ہی اپنے فوجی واپس بلا سکتے ہیں۔
کیمرون راس کینیڈا کے ریٹائرڈ جنرل ہیں جنھوں نے1998ء سے 2000ء تک جو لان کی پہاڑیوں میں اقوامِ متحدہ کی ’ڈی اینگیجمنٹ مبصر فورس‘ کی کمان کی تھی۔ انھوں نے غربی کینیڈا میں برٹش کولمبیا سے فون پر کہا کہ جن ملکوں نے شام میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے لیے جسے مختصراً ’یواین ایس ایم آئی ایس‘ کہتے ہیں، انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی وجہ سے واپس بلا سکتے ہیں۔
’’جب حالات بدلتے ہیں تو یہ ملک کہہ سکتےہیں کہ ہم نے اپنے سپاہیوں کو اتنے زیادہ خطرے میں ڈالنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ یا وہ کسی سیاسی مسئلے کی وجہ سے اپنے سپاہیوں کو واپس نکال سکتے ہیں۔ اس قسم کے مشنوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔‘‘
’یواین ایس ایم آئی ایس‘ میں سوئٹزرلینڈ کے دو سپاہی ہیں۔ وائس آف امریکہ کے نام ایک ای میل میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے کہا کہ حالات بدلنے پر وہ کسی بھی وقت ان سپاہیوں کی تعیناتی ختم کر سکتی ہے۔
یواین ایس ایم آئی ایس کے دوسرے ممبر ملکوں نے جن میں برازیل، کروشیا، ڈنمارک اور فیجی شامل ہیں، وائس آف امریکہ سے کہا کہ وہ اپنے مبصر صرف اس صورت میں واپس بلائیں گے جب اقوامِ متحدہ کے عہدے دار ان سے ایسا کرنے کو کہیں گے۔
تیمور گوکسیل جنوبی لبنان میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے سابق ترجمان ہیں۔ بیروت سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بہت سے ملک اقوامِ متحدہ کے کمانڈروں کے فیصلوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔
’’یہ بہر حال فوجی کمان ہے اور ایک با اعتماد، تجربے کار شخص اس کا سربراہ ہے۔ بیشتر لوگ اس انتظام سے مطمئن ہیں۔ وہ صورتِ حال پر نظر تو رکھیں گے لیکن وہ اقوامِ متحدہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘‘
کروشیا کی حکومت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام سے اس کے دو مبصروں کی واپسی ’یواین ایس ایم آئی ایس‘ کے اس دستاویز کے مطابق ہو گی جس کا عنوان ہے ’کنسپٹ آف آپریشنز‘۔ اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ایمرجینسی کی صورت میں مبصرین کی واپسی کا طریقۂ کار کیا ہوگا۔
کیمرون راس اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’واپسی کے بارے میں وہ در اصل یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا وہ ہوائی جہاز سے واپس آئیں گے یا لبنان کے راستے ڈرائیو کرتے ہوئے نکلیں گے اور پھر بیروت سے ہوائی جہاز لیں گے کیا وہ اردن سے اور اسرائیل سے ہوتے ہوئے آئیں گے۔ یہ در اصل کروشیا واپس آنے کے انتظامات کی بات ہو رہی ہے۔‘‘
سفارتکاروں نے کہا کہ ’یواین ایس ایم آئی ایس‘ کے لیے اپنے فوجی دینے والوں اور اقوامِ متحدہ کے دوسرے ارکان کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق نہیں کہ مبصرین کو شام میں ٹھہرنا چاہیئے یا وہاں سے نکل آنا چاہیئے۔
جوشہوا لینڈس اوکلاہوما یونیورسٹی میں مطالعۂ مشرق وسطیٰ کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے مانیٹرز شام سے چلے جائیں کیوں کہ وہ انہیں حکومت کی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہو گی جس میں شام کے باغی صدر بشار الاسد کا تختہ الٹ دیں گے۔
’’ان میں سے بیشتر لوگ کہیں گے کہ تشدد کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ شام میں حکومت تبدیل ہو جائے۔ لیکن جب تک اقوامِ متحدہ وہاں موجود ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ سب کو خون خرابہ بند کر دینا چاہیئے تو باغیوں کو اسلحہ پہنچانا مناسب نہیں ہوگا۔
تیمور گوکسیل کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے بعض دوسرے ارکان چاہتے ہیں کہ مبصرین کا مشن وہاں موجود رہے کیوں کہ اس طرح شام میں تشدد کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
’’اس بین الاقوامی فورس کی موجودگی سے اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے، اس کو ریکارڈ کیے جانے سے فریقین پر دباؤ پڑتا ہے اور یہ بڑی اہم بات ہے۔ کسی کو اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہئیے۔‘‘
لینڈنس کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے لیے یہ بڑی مشکل صورتِ حال ہے کہ مبصرین کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔
’’انہیں پریشانی یہ ہے کہ اگر وہ وہاں موجود رہتے ہیں اور اپنے گشت جاری رکھتے ہیں تو وہ کسی دھماکے کا نشانہ بن سکتے ہیں اور ہلاک ہو سکتے ہیں۔ انہیں یہ پریشانی بھی ہے کہ اگر وہ واپس بلا لیے جاتے ہیں، اور مشن ختم کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد شام میں بڑے پیمانے پرقتلِ عام ہوتا ہے تو پھر ساری دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا اور ہر کوئی یہی کہے گا کہ اقوامِ متحدہ کیا کر رہی ہے وہ وہاں موجود کیوں نہیں ہے؟۔‘‘
کیمرون راس نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے سامنے ایک اور راستہ یہ ہے کہ مبصرین کو گھر واپس بھیج دیا جائے اور جنرل موڈ اور ان کے سویلین اسٹاف کے کچھ لوگوں سے کہا جائے کہ وہ نزدیکی قبرص میں قیام کریں۔ یہ ٹیم فوری طور پر شام واپس جا سکتی ہے اگر ایسا کوئی موقع پیدا ہو۔