امریکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی سے متعلق جمعے کو پیش کی جانے والی قراردار کی منظوری کے لیے پرعزم ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ مسودہ قرارداد کو 15 رکنی کونسل سے منظور کر لیا جائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ روز سعودی عرب میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ غزہ جنگ بندی کے لیے واشنگٹن نے سلامتی کونسل میں ایک قراردار جمع کرا دی ہے۔
قراردد کے متن میں کہا گیا ہے کہ تقریباً چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی "فوری اور پائیدار جنگ بندی" شہریوں کی حفاظت کرے گی اور انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دے گی۔
قرارداد میں قطر میں ہونے والے مذاکرات، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔
امریکہ جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی حمایت چاہتا ہے جو کہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی سے منسلک ہو۔
اس سے قبل امریکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کا دفاع کرتا رہا ہے اور غزہ جنگ بندی سے متعلق سلامتی کونسل میں کئی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی مؤقف میں یہ تبدیلی ایسے وقت میں دیکھی جارہی ہے جب پانچ ماہ سے جاری جنگ کی بڑھتی ہوئی عالمی مذمت، فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں، صدر جو بائیڈن کو سیاسی مخالفت اور غزہ میں قحط کے امکانات ہیں۔
واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے نے سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
سلامتی کونسل میں منظوری کے لیے قرارداد کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے کونسل کے مستقل رکن امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس یا چین کی جانب سے ویٹو کا نہ ہونا بھی ضروری ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں پانچ ماہ سے جاری جنگ سے خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے لوگوں کو قحط کا سامنا ہے جب کہ امریکہ سمیت عالمی برادری نے بڑے پیمانے پر فلسطینی ہلاکتوں پر اسرائیل پر تنقید کی ہے۔
فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 253 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اب تک تقریباً 32,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
قطر میں ثالثی کی کوششیں
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر ہیں جو جمعے کو اسرائیل پہنچ رہے ہیں جب کہ ایک اسرائیلی وفد قطر میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہو گا۔
قطر کی ثالثی میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات تقریباً چھ ہفتوں کی جنگ بندی پر مرکوز ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے 40 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنائے گا جب کہ غزہ میں مزید امداد کی راہ ہموار ہو گی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مذاکرات کاروں کو اس اختلافی نقطے کا سامنا ہے کہ حماس یرغمالیوں کو صرف اس معاہدے کے حصے کے طور پر رہا کرے گا جس سے جنگ کا خاتمہ ہو گا، جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک عارضی توقف پر بات کرے گا۔
ثالثی کی کوششوں سے واقف ایک فلسطینی اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ حماس نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ اہلکار نے کہا کہ اسرائیل اپنے موقف پر قائم ہے کیونکہ وہ غزہ پر جنگ ختم کرنے کا عہد نہیں کرنا چاہتا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا جمعے کو ثالثوں سے ملاقات کے لیے قطر جائیں گے۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان اس مقصد کے لیے معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
جمعرات کو قاہرہ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، "مذاکرات کار کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خلا کم ہو رہا ہے، اور ہم دوحہ میں ایک معاہدے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ وہاں پہنچنے کے لیے ابھی بھی مشکل کام باقی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ممکن ہے۔"
دریں اثناء اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ شہر کے الشفا اسپتال پر مزید چند دنوں تک حملے جاری رکھے گا۔
غزہ کی محصور پٹی پر جزوی طور پر کام کرنے والا یہ واحد اسپتال ہے اور پہلے ہی چار دنوں سے حملے کی زد میں ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے بندوقوں سے لیس عسکریت پسند اس اسپتال میں چھپے ہوئے ہیں۔ حماس نے ان دعووں کی تردید کی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اسپتال میں حالیہ آپریشن میں حماس کے 150 جنگجوؤں کو ہلاک اور 358 کو حراست میں لیا ہے۔
(اس خبر میں شامل کچھ معلومات خبر رساں اداروں اے پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم