اقوام متحدہ کے انسانی بہبود سے متعلق اُمور کے سربراہ نے شام پر اثر و رسوخ رکھنے والے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ مشرقی حلب میں عام شہریوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں تاکہ شام کا یہ شہر "بڑے قبرستان"میں تبدیل نا ہو جائے۔
اسٹیفن او برائن نے بدھ کو سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کو بتایا کہ ہفتے کے دن سے باغیوں کے زیر کنٹرول مشرقی حلب کے علاقوں سے 25 ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ہر گھنٹے اور دن میں یہ تعداد تبدیل ہو رہی ہے۔
"اگر لڑائی مزید پھیلتی ہے اور اس میں اور شدت آتی ہے تو ممکنہ طور پر مزید ہزاروں افراد کو یہاں سے نکلنا پڑے گا۔"
اسٹیفن نے کہا کہ اگرچہ دنیا کی زیادہ توجہ مشرقی حلب میں پھنسے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد پر مرکوز ہے تاہم انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ شام کے دیگر محصور علاقوں میں سات لاکھ افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "وہ (لوگ) پھنسے ہوئے ہیں، وہ سہمے ہوئے ہیں۔ سردی کا موسم قریب ہے اور وہ حلب کے دل دہلا دینے والے واقعات کو دیکھ رہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کیا ان کا اگلا نشانہ میںبن سکتا ہوں۔"
اسٹیفن نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ شام سے متعلق اپنے دیرینہ اختلافات کو ختم کرتے ہوئے "مظالم کو روکیں اور باقی شامیوں کے لیے اسی طرح کے نتائج کو روکیں۔"
انہوں نے کہا کہ تین چیزیں اہم ہیں، عام شہریوں کی حفاظت، امدادی کارکنوں کے لیے محفوظ و بلا رکاوٹ رسائی اور محاصروں کا خاتمہ۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفن دی مستیورا نے جنیوا سے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب مخالف کے مسلح گروپوں کے زیر کنٹرول علاقے میں سے مزید 40 فیصد علاقہ سرکاری فورسز کے قبضہ میں ہے۔
تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ"اس سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔"
"جتنی بھی فوجی پیش رفت ہم دیکھ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جسے ایک مستحکم، پائیدار اور مستقل فوجی حل قرار دیا جا سکے۔"
دی مستیورا نے کہا کہ بات چیت کے نتیجے میں ہونے والا سیاسی حل ہی اس بحران کو ختم کرے گا۔