اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں گذشتہ پانچ سال سے جاری لڑائی کے دوران تمام فریق کی جانب سے مختلف قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قانون کی انحرافی جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔
بین الاقوامی اور علاقائی ماہرین کی جانب سے مرتب کردہ ایک نئی رپورٹ میں ایک طویل فہرست دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یمن کی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، ایرانی پشت پناہی والے حوثی باغی اور اس سے منسلک مسلح گروپوں کی جانب سے سنگین خلاف ورزیاں سرزد ہوئیں، جن کی پوچھ گچھ کسی نے نہیں کی۔
یہ خلاف ورزیاں فضائی کارروائیوں، بلاامتیاز گولہ باری، گھات لگا کر ہلاک کرنے کے واقعات، بارودی سرنگوں کی تباہ کاری کے ساتھ ساتھ وسیع نوعیت کے مظالم پر مشتمل ہیں، جن میں اذیت دینا، یکطرفہ کارروائیاں کرنا اور حراست میں لینا، آبروریزی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔
یمن کے بارے میں یہ رپورٹ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی جائے گی۔
بین الاقوامی ماہر، چارلز گیراوے نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ان جرائم میں لڑائی میں شامل سارے فریق ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’اس بازی میں کسی کے ہاتھ صاف نہیں۔ یہ ایسا معاملہ بھی نہیں ہے جس میں یہ دیکھا جائے کہ کس نے کس سے زیادہ جرم کیے۔ ہر ایک۔ اس کا ہر ایک ذمہ دار ہے‘‘۔
ماہرین کے پینل نے کہا ہے کہ اس تباہ کُن صورت حال سے صرفِ نظر کرنے کا جرم بند کیا جائے۔
اقوام متحدہ نے یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے، اور بتایا ہے کہ ملک کے دو کروڑ 40 لاکھ افراد یا 80 فی صد آبادی کے زندہ رہنے کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔
لیکن حملوں اور بندشوں کے نتیجے میں خوراک، ادویات اور دیگر امداد لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔
رپورٹ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ لڑائی میں شامل فریق فاقہ کشی کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
بین الاقوامی ماہر، ملیسا پارک نے کہا ہے کہ اختلافِ رائے رکھنے کی پاداش میں لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے یا انھیں ہدف بنائے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس اسلحے کی رسد فراہم کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حوثی باغیوں کو ایران ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
ماہرین نے ان ملکوں سے کہا ہے کہ وہ تنازع میں ملوث فریقین کو اسلحہ فراہم نہ کریں۔ انھوں نے کہا ہے کہ لڑائی میں شامل افواج کو اسلحے کی رسد جاری رکھنے سے تنازعہ زور پکڑتا ہے، جس سے یمنی عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔