عالمی ادارہ خوراک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو عالمی نوعیت کی ایک ایسی ایمرجنسی کا سامنا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے 34 کروڑ افراد شدید بھوک اور فاقہ کشی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جب کہ یوکرین کی جنگ نے 7 کروڑ افراد کو فاقہ کشی کی صورت حال کے قریب پہنچا دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ 82 ممالک میں جہاں ان کا ادارہ کام کرتا ہے وہاں ساڑھے 34 کروڑ افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یہ تعداد کوویڈ 19 کی وبا سے پہلے کے شدید غذائی عدم تحفظ میں گھرے افراد کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے کہ 45 ممالک میں پانچ کروڑ افراد غذائی قلت کی صورت حال سے آگے بڑھ کر قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
خوراک کے عالمی ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس خوفناک صورت عالمی صورت حال نے کرونا وائرس کی عالمی وبا کے معاشی اثرات، آب و ہوا کی تبدیلی، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور یوکرین کی جنگ کے بطن سے جنم لیا ہے۔
بیسلی نے کہا کہ 24 فروری کو روس کی جانب سے اپنے پڑوسی ملک پر حملے کے بعد خوراک، ایندھن اور کھاد کی قمیتوں پر پڑنے والے دباؤ نے 7 کروڑ افراد کو بھوک اور فاقے سے مرنے کے قریب تر کر دیا ہے۔
جولائی میں یوکرینی اجناس کو بحیرہ اسود کی ان تین بندرگاہوں کے راستے، جن کی روس نے ناکہ بندی کر رکھی تھی، خوراک کی قلت کے شکار ملکوں میں بھیجنے کے معاہدے کے باوجود اس سال قحط کا خطرہ حقیقی اور پریشان کن دکھائی دے رہا ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اناج اور روسی کھاد کو عالمی منڈیوں میں واپس لانے کی کوششوں کے باوجود 2023 میں خوراک کی قیمتوں کا موجودہ بحران خوراک کی عدم دستیابی کے بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
سلامتی کونسل ۔ایتھوپیا، شمال مشرقی نائیجیریا، جنوبی سوڈان اور یمن میں تنازعات کی وجہ سے وہاں غذائی عدم تحفظ اور قحط کے خطرے کی نشاہدی کر چکی ہے۔ لیکن بیسلی اور اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے سربراہ مارٹن گریفتھس کہتے ہیں کہ صومالیہ میں بھی خوراک کا بحران خطرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گریفتھیس کہتے ہیں کہ صومالیہ میں قحط آئے گا، لیکن یہ خطرہ صرف صومالیہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ صومالیہ تو اس خطرے کا ہدف بننے والے بہت سے ملکوں میں سے محض ایک ملک ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدے دار أفغانستان میں شدید غذائی قلت اور قحط کے خطرے سے آگاہ کر چکے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے اس ملک میں امدادی اور معاشی سرگرمیاں انتہائی محدود ہیں جس سے قحط کا خطرہ ہر آنے والے لمحے میں قریب سے قریب تر ہو رہا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں سات سال سے جاری خانہ جنگی نے ملک کی پہلے سے تباہ حال معیشت کو منہدم کر دیا ہے۔ اس ملک میں ہر دس میں سے چھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک کروڑ 90 لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں پانچ لاکھ 38 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
خوراک کے عالمی ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یوکرین کی جنگ سے دنیا بھر میں مہنگائی بڑھ رہی ہے جس کا براہ راست اثر یمن جیسے ملکوں پر پڑ رہا ہے جو اپنی 90 فی صد خوراک درآمد کرتے ہیں۔قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ورلڈ فوڈ پروگرام پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے مالی وسائل کے پیش نٖظر اب اتنے ضروت مندوں تک خوراک کی امداد پہچانے کے قابل نہیں رہاجس کی منصوبہ بندی اس نے موجودہ بحران شروع ہونے سے پہلے کی تھی۔
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یمن میں وہ غذائی بحران میں گھرے لوگوں کو اب پہلے کے مقابلے میں دو تہائی راش فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اور افریقی ملک جنوبی سوڈان کی 60 فی صد آبادی کو خوراک کے بحران اور بھوک کا سامنا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام مہنگائی اور اپنے محدود وسائل کی بنا پر تمام ضرورت مندوں کی مدد نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ تنازعات کے حل، تشدد کے خاتمے اورامدادی اداروں کے مالی وسائل بڑھانے کے لیے جتنی جلد ممکن ہےاقدامات کرے تاکہ قحط کے دہانے پر پہنچے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کی جا سکے۔